نہ آیا کبھی میں ترے آستاں پر

نہ آیا کبھی میں ترے آستاں پر
بھٹکتا رہا بس یہاں اور وہاں پر


تری یاد نے دل تو روشن کیا تھا
لگایا مگر قفل میری زباں پر


کبھی فکر فردا کبھی یاد ماضی
ہر اک دن نیا بار مجھ ناتواں پر


سنائی سر انجمن جو تھی تو نے
کوئی شخص رویا تھا اس داستاں پر


اسے شاعری تم کہو تو کہو پر
کہے شعر میں نے ہیں دل کی فغاں پر


زوہیبؔ ہم مشقت سے گھبرائے کب تھے
مگر دل دکھی ہے تو کار زیاں پر