شوخی ادا غرور شرارت خریدئیے

شوخی ادا غرور شرارت خریدئیے
چاندی اچھالیے تو قیامت خریدئیے


اسلاف کے نقوش کتابوں میں بند ہیں
بازار سے کسی کی شباہت خریدئیے


اٹکی ہوئی ہے روح پرانی تراش میں
کس دل سے عصر حال کی جدت خریدئیے


اہل جہاں کا اور بدلنے لگا مذاق
فکر و نظر بھی حسب ضرورت خریدئیے


ظاہر بہت حسین ہے باطن گھناؤنا
پچھتائیے گا آپ مجھے مت خریدئیے


قرآن کھولنے کی ضرورت نہیں رہی
بکتی ہے صبح و شام تلاوت خریدئیے


پک جائے گا تو آپ ٹپک جائے گا جناب
آنگن میں شاخ آئی ہے پھل مت خریدئیے