باتوں سے تیری بات کی خوشبو نکل پڑے
باتوں سے تیری بات کی خوشبو نکل پڑے
پہچان کا کہیں کوئی پہلو نکل پڑے
کم کم کہوں میں شعر سناؤں بہت ہی کم
کیا جو کسی غزل سے کبھی تو نکل پڑے
بوسہ کہا تھا آپ نے ابرو چڑھا لئے
اتنی ذرا سی بات پہ چاقو نکل پڑے
اس بار اس نے آپ سے تم کہہ دیا ہمیں
ایسی خوشی کہ آنکھ سے آنسو نکل پڑے
کہتے ہیں روشنی کی حفاظت کریں گے ہم
سورج کی دیکھ بھال کو جگنو نکل پڑے
کانوں میں رس تھی گھولتی سنتوں کی بانیاں
ترشول لے کے آج کے سادھو نکل پڑے
افلاس کے لباس میں یہ بات ہے اگر
شاہانہ آن بان سے اردو نکل پڑے
جب دین کی مدد کو پکارا گیا حفیظؔ
پھانکا نہ اپنے ہاتھ کا ستو نکل پڑے