کچھ کرنے کی مہلت کم ہے
کچھ کرنے کی مہلت کم ہے
اب عمروں میں برکت کم ہے
اکثر باہر ہی رہتا ہوں
کیا میرا گھر جنت کم ہے
چڑ جاتا ہوں لڑ جاتا ہوں
سچ سہنے کی عادت کم ہے
ان سے آگے کیسے جاؤں
جن سے میری قسمت کم ہے
رائی رائی دینے والے
مجھ کو پربت پربت کم ہے
سادہ سادہ باتیں کیجے
اب ذہنوں کو فرصت کم ہے
مومنؔ کے اشعار سناؤ
افسانوں میں لذت کم ہے