شہرتیں اوروں نے پائیں نام اوروں کو ملا

شہرتیں اوروں نے پائیں نام اوروں کو ملا
کام تو ہم نے کیا انعام اوروں کو ملا


فصل جو میں نے اگائی کر کے محنت رات دن
جب بکی وہ فصل میری دام اوروں کو ملا


میرے پرکھوں نے لگائے پیڑ جو میرے لئے
ان کی ٹھنڈی چھاؤں میں آرام اوروں کو ملا


میرے حصے میں سلگتی دوپہر کی دھوپ تھی
زندگی کا لطف صبح و شام اوروں کو ملا


تھی ہماری حیثیت اس شہر میں معمار کی
ہم نے چھت تعمیر کی آرام اوروں کو ملا


ہم بھی پیاسے تھے مگر منہ دیکھتے ہی رہ گئے
دست ساقی سے چھلکتا جام اوروں کو ملا


مجھ کو صابرؔ ہر قدم پر راہ میں کانٹے ملے
پھولوں سے آراستہ ہر گام اوروں کو ملا