مجھے بے خانما کر کے پشیماں وہ نہ یوں ہوتا

مجھے بے خانما کر کے پشیماں وہ نہ یوں ہوتا
اگر میری تباہی سے اسے حاصل سکوں ہوتا


مجھے آسودگی بخشی تھی میری خستہ حالی نے
مرے ہونٹوں پہ کیوں کر شکوۂ حال زبوں ہوتا


در منعم پہ جھک کر سرفرازی ہوتی جو حاصل
میں ایسی سرفرازی کے لئے کیوں سرنگوں ہوتا


خرد کے سامنے ہوتی نہ رسوائی کبھی اس کی
اگر جوش جنوں واقف بہ آداب جنوں ہوتا


وہی ہو کے رہا آخر جو ہونا تھا مرے حق میں
اب اس پر رنج کیا کرنا کہ یوں ہوتا نہ یوں ہوتا


اگر میں ساحر فن ہوتا اپنے عہد کا صابر
اثر انداز لوگوں پر مرے فن کا فسوں ہوتا