شکایت کریں کیا شکایت سے کیا ہو

شکایت کریں کیا شکایت سے کیا ہو
اگر جنگ لازم ہے تو حوصلہ ہو


بشر کا تو اتنا نہ دل صاف ہوگا
تم انساں کی صورت میں جیسے خدا ہو


یہ سرکش سمندر نکل پاؤ گے جب
جنوں سانس لینے کا سر پر چڑھا ہو


محبت میں ہو تو بس اتنا کہوں گا
مزہ چار دن کا ہے لمبی سزا ہو


کوئی ہر مصیبت سے ہم کو نکالے
اثر کر رہی دوستوں کی دعا ہو


یہ پرواز کا خواب اچھا ہے لیکن
ذرا پہلے قدموں پہ اپنے کھڑا ہو


سیاست سے ہم کو تمہیں کیا ملے گا
یہ دھندہ ہے جس کا اسی کا بھلا ہو


تبسم کہ پیچھے کہیں کچھ چھپا ہے
ہمیں سب پتا ہے تم ہم سے خفا ہو


ابھی جو بھی ملتا ہے تسلیم کر لو
پھر آگے سفر میں نہ جانے کہ کیا ہو