اس نئے گھر میں بھی ہر چیز پرانی کیوں ہے

اس نئے گھر میں بھی ہر چیز پرانی کیوں ہے
گر یہ صورت ہے تو پھر نقل مکانی کیوں ہے


کوئی خوبی بھی نہیں نقص بھی لاکھوں مجھ میں
تو مرے عشق میں اس درجہ دوانی کیوں ہے


ہجر کی بات کرو مجھ سے کبھی خلوت میں
پھر یہ سوچو کہ مری آنکھ میں پانی کیوں ہے


لکھنؤ شہر مرا شہد سا لہجہ سمجھوں
آپ کے شہر میں یہ تلخ زبانی کیوں ہے


جنگ ہے جہل سے افرنگؔ قلم ہی کافی
کیا ضرورت ہے کہ شمشیر اٹھانی کیوں ہے