نیند راتوں کی مرے یار اڑاتی ہے غزل

نیند راتوں کی مرے یار اڑاتی ہے غزل
صبح تک ایک غزل گو کو جگاتی ہے غزل


لوگ کہتے ہیں غزل کہنا کوئی کام نہیں
کیا خبر ان کو کہ کس کام میں آتی ہے غزل


رات جب پاس مرے کوئی نہیں ہوتا ہے
مجھ کو سینے سے لگا کر کے سلاتی ہے غزل


ایک مصرعہ کہ کوئی شعر عطا کر کے مجھے
اپنے چکر میں کئی روز گھماتی ہے غزل


ٹھیک سے گر یہ لکھی جائے پڑھی جائے یہاں
ایک انسان کو انسان بناتی ہے غزل