پھول کچلے جا رہے تھے باغباں چیخا کیا

پھول کچلے جا رہے تھے باغباں چیخا کیا
یہ زمیں روتی رہی وہ آسماں چیخا کیا


جو مکاں والے تھے سارے بے خبر سوتے رہے
رات بھر سڑکوں پہ کوئی بے مکاں چیخا کیا


جتنے زندہ لوگ تھے سب لاش بن کر رہ گئے
جب مدد کے واسطے اک نیم جاں چیخا کیا


جانتے تھے ہم بھٹک کر ہی ملیں گی منزلیں
اپنے ہی رستے چلے پھر راہ داں چیخا کیا


ظاہراً ہم دونوں اس کی جان کے دشمن ہوئے
وہ جو رشتہ تیرے میرے درمیاں چیخا کیا


جب اٹھائی جانی تھی آواز ظالم کے خلاف
چپ رہے اہل زباں اک بے زباں چیخا کیا


لمحۂ ہجراں گزرنے بعد یہ عالم رہا
وہ کہیں روتا رہا اور میں یہاں چیخا کیا


یہ ہوا پھر بانٹ لی یاروں نے ساری کائنات
اور میں تنہا پس سود و زیاں چیخا کیا


تم کو تو افرنگؔ آنا ہی نہیں تھا لوٹ کر
میں تمہارا نام لے کر رائیگاں چیخا کیا