نیا اک جہاں

چلو نیا اک جہاں بسا لیں
جہاں ہر انسان ہو برابر
نہ کوئی اونچا نہ کوئی نیچا
نہ کوئی گورا نہ کوئی کالا
کسی کی داڑھی کسی کی چوٹی
سے فرق ہوتا نہ ہو جہاں پر
جہاں کہ مذہب اگر ہو کوئی
تو وہ ہو انسانیت کا مذہب
کرے حکومت تو بس محبت
نہ کوئی رنجش نہ کوئی نفرت
خلوص کو مرنے سے بچا لیں
چلو نیا اک جہاں بسا لیں


میں بات کرتا ہوں اس جہاں کی
جو اس جہاں میں نہیں ہے شاید
وہ جس کے بارے کہانیوں میں
پڑھا تھا شاید سنا تھا شاید
وہ جس میں ہر شخص ایک سا ہو
برا بھی ہو گر تو نیک سا ہو
جہاں کہ ہر کوئی دوسرے کے
لہو کی قیمت سمجھ رہا ہو
جہاں کسی کا نہ قتل ہوتا
ہو ذات مذہب کا نام لے کر
وہیں کہیں اپنی جا بنا لیں
چلو نیا اک جہاں بسا لیں


میں سوچتا ہوں کہاں ملے گا
جہاں وہ جس میں ہو صرف انساں
نہ کوئی وحشی نہ ہو درندہ
جہاں کہ عورت کی آبرو کو
نہ نوچ کر کوئی کھا رہا ہو
کہ کوئی وحشت کا رقص کر کے
نہ مرد خود کو بتا رہا ہو
جہاں کہ محفوظ خود کو سمجھے
ہر ایک حوا ہر اک یشودہ
ہر ایک مریم ہر ایک سیتا
یہ فرض ہے ہم اسے نبھا لیں
چلو نیا اک جہاں بسا لیں


میں جانتا ہوں کہ ایسی دنیا
ہے ڈھونڈ پانا بہت ہی مشکل
یا یوں بھی کہہ لیں نہیں ہے ممکن
وہ اس لیے کیوں کہ آدمی اب
غلیظ کیڑوں سے بھی برا ہے
جو اپنی حد سے گزر چکا ہے
اور ایک دوجے کو کھا رہا ہے
بشر کا مطلب بھلا رہا ہے
کہ خود کو حیواں بنا رہا ہے
نہ جانے کس سمت جا رہا ہے
ہم اس جہنم سے جاں چھڑا لیں
چلو نیا اک جہاں بسا لیں