شرارتیں

سیاہی مل کے چہرے پر اندھیرے میں دکھاتا ہوں
میں بن کر بھوت اکثر چھوٹے بچوں کو ڈراتا ہوں
میں کب درجہ میں اپنی حرکتوں سے باز آتا ہوں
کوئی دیکھے اگر میری طرف تو منہ چڑھاتا ہوں
ربر کی چھپکلی رکھتا ہوں بچوں کی کتابوں میں
کبھی مینڈک پکڑ کر ان کے بستوں میں چھپاتا ہوں
گلی کے لوگ بھی میری شرارت سے پریشاں ہیں
بجا کر ان کے دروازے کی کنڈی بھاگ جاتا ہوں
کبھی ابو سے پٹتا ہوں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
گدھے کی دم پکڑ کر کھینچنے پر لات کھاتا ہوں
اب اکثر سوچتا رہتا ہوں یہ عادت نہیں اچھی
کہ ساحلؔ دوسرے لوگوں کو میں ناحق ستاتا ہوں