شرارت کی پتلی

شرارت کی پتلی تھی باجی کی منی
وہ اتنی سی فتنی تھی باجی کی منی
ادھر اور ادھر تھی وہ بس آتی جاتی
یوں ہی پھرتی رہتی وہ ڈنڈے بجاتی
کبھی بے کہے چیز اس کی اٹھا لی
نہ پوچھا گچھا منہ میں رکھ جھٹ سے کھا لی
کبھی منہ بنایا کبھی منہ چڑھایا
کبھی پاس بیٹھے ہوئے کو ہٹایا
کبھی بال نوچے کبھی چٹکیاں لیں
کبھی پن چبھو دی کبھی گھڑکیاں دیں
کبھی اس سہیلی کا جوتا چھپایا
کبھی اس سہیلی کا حلوہ اڑایا
کتاب اس کی پھاڑی دوات اس کی توڑی
غرض کوئی باقی شرارت نہ چھوڑی
شرارت سے بس بوٹی بوٹی بھری تھی
وہ منی شرارت کی اک پھلجھڑی تھی
کڑھائی بنائی نہ کھانا پکانا
نہ سینا پرونا نہ پڑھنا پڑھانا
وہ گھر کا کوئی کام دھندا نہ کرتی
یوں ہی سارے دن گھر میں بیکار پھرتی
کہانی یہ منی کی ہے خوب نیرؔ
پڑھی جائے گی شوق سے خوب گھر گھر