شاخ جبر کا انوکھا پھل
اور پھر بہت جنگ ہوئی ،بہت خون خرابہ ہوا، یہ کوئی آسان ہدف نہ تھا، یہ جنگ بھی آج
۔کی جنگ نہ تھی یہ تو نظریات کا بھیانک ٹکراو تھا ،اس کی تاریخ بنی آدجتنی ہی قدیم تھی
یہ مقابلہ روشنی اور اندھیرے کے درمیان تھا!
یہ مقابلہ دو قوتوں کے درمیاں تھا۔۔
اک قوت بنی آدم کو اس کرے کا نفس مضمون اور فاعل سمجھی تھی ۔۔
اور دوسری قوت مصر تھی کہ وہ مفعول ہے!
یہ دونوں قوتیں اب سے نہیں ہمیشہ سے اِک دوسرے سے برسر پیکار ہیں!
کیسے نہ ہوتیں ، دونوں پوری قوت سے دوڑ رہی تھیں مگر متضاد سمت میں!سو ٹکراؤ تو لازمی تھا!
یہ قوتیں ہر دور میں اپنے چولے ،اپنے لبادے بدل بدل برسرپیکاررہیں!!
مگر بنیاد پر ستی ہمیشہ سے اِک کا شعار تھا،ہمیشہ سے اِن کاہتھیار تھا۔
یہ جنگ قدیم اور جدید سوچ کی تھی!
تصادم نا گزیر تھا!خون توبہنا ہی تھا۔
اب بھی یہی ہوا ،اِک طویل مدت سے یہ دو متصادم قوتیں متقابل تھیں!.
اک طرف وہ لوگ تھے جو اِنسان کو فاعل دیکھنا چاہتے تھے،مذہب سے الگ اُسکی بطور اِنسان شناخت پہ مصر تھے، احترام آدمیت کے دعویدار تھے!
اُن کا کہنا تھا کہ آرٹ اور فنون لطیفہ کا رازق وخالق وہ خدا خود ہے جو مصور کہلاتاہے پھر کیوں اُسکو مذہب کے نام پہ حرام کر دیا جائے!
وہ کہتے تھے مذہب، عقیدہ ہر شخص کا اِنفرادی معاملہ ہے اِسکی تصدیق الہامی کتابیں بھی کرتی ہیں جو آپکے غیر مذہب کو زندگی کرنے کا حق دیتی ہیں تو کیوں اِنسان سے جِینے کا حق چھینا جائے!
کیوں ریاست کو مذہب چلائے؟
وہ یہ بھی دعویٰ کرتے تھے اِنساں تو ریاست سے بھی ماورا ہے!
اُس کا خون ناحق بہے تو اُسکے لیے آواز بلند کرنی چاہیے!
وہ عورت کو برابر اِنسان قرار دیے جانے پہ بھی مصر تھے!
مگر سچ تو یہ تھا کہ وہ کسی بھی ایک سطح پہ ایک گروہ کی طرح متشکل نہیں تھے۔
وہ مختلف النوع اور مزاج کے منتشرافراد تھے!
متشر المزاجی کے باعث اپنی قوت کھو بیٹھے تھے!
اُن کے اپنے درمیان بہت سے اِختلافات و تنازعات تھے!
یہ تنازعات بُغض و نفرت کی دیواریں کھڑی کر دیتے !
وہ کسی احمق شُتر مرغ کی طرح ریت میں گردن دھنسائے کھڑے تھے!
وہ جانتے ہی کب تھے کہ خطرہ اُنکے سروں پہ منڈلا رہا ہے!
اُ ن میں سے کچھ مذہب کے بغض میں اِس حد تک چلے گئے تھے کہ کفر و الحاد کو چھونے لگے تھے، اُس آفاقی سچائی سے ہی منہ موڑ لیا تھا!
اور اپنے اِسی بُغض میں خدا پرستوں کو قدامت پسند کے اِستہزاء کا نشانہ بناتے تھے!
کچھ سچے ، مخلص لوگ تھے جو بس خیال کو روشن رکھنا چاہتے تھے، انسان کو تعین کی موت کی بجائے تعبیروں میں زندگی ڈو ھنڈونا اُنکا شعار تھا!
اور کچھ نیم دروں ،نیم بروں روشن خیال کہلانے کے شوق میں اُن سے آن ملے تھے مگر اِک و حشی و قدیم اِنسان اُن کے جبوں میں چُھپا ہوا تھا!
غرض یہ روشن خیال زندگی سے ،اِنسا ن سے، ادب ،موسیقی ،فطرت ،رنگ،تصویر سے محبت کرنے والا قبیلہ ،کسی قبلے پہ مر تکز نہ تھا!
بد قسمتی تو یہ تھی کہ اِنسا ن کی اور اُنکے نظر یے کی غارت گری بھی اُنکو متحد نہ کر سکی تھی!
اور دوسری طرف وہ تھے جو سر پر پگڑیا ں ،ڈھاٹے لپیٹے سرخ آنکھوں میں وحشت ، خشونت ،نفرت وتکبر کے ڈورے کھینچے ،حلقوم سے بناوٹی آوازیں بلند کرتے جو محض خالی آوازیں ہوتیں ، دیواروں سے ٹکرا کر واپس آجاتیں جو کسی دِ ل کو متاثر کرنے کی ہیبت سے خالی ہو تیں !
ہاں وہ اِس بات سے باخبر تھے کہ یہ آوازیں محض اِک شور ہیں،دلیل سے خالی ہیں، سو کسی پر مغز و بر ہان بھرے شخص پہ اثر انداز نہیں ہوں گی ،سو وہ دلیل سے خالی مجمعے کو اکھٹا کرنا اور ہنکانا جانتے تھے، جذبات و اِشتعال سے بھرے نوجوان اور بچے اُنکا ہدف تھے ، اُنکے دماغوں کو اپنے بس میں کر کے وہ اُنہیں ریموٹ کنٹرول سے چلانے کاہنر جانتے تھے اور جہاں دِل چاہتا اِس ریموٹ کنٹرول کا بٹن دب جاتا اور دور دور تک چیتھڑے ،خون، گوشت، بارود کی بو پھیل جاتی!
انہیں خیال کی روشنی سے نفرت تھی!
انہیں ترقی کی ہر سوچ سے وحشت تھی!
انہیں عورت کے اُبھرتے اِنسانی خدوخال سے بھی چڑتھی!
یہ چڑ غم وغصے اِشتعال کے لامحدود جذبے میں ڈھل جاتی یہ محسوس کر کے کہ اُنکی محکوم ،اُنکی خادم ،اُنکی جایئداد جس کو مذہب رسم و رواج کی بھاری بیٹریوں میں جکڑا تھا وہ کیسے آج جدید تعلیم کے سر پر آزاد ہو کر اُنکے قد کے برابر کھڑی ہوگئی ۔۔۔ ۔ سو وہ جدید تعلیم سے بھی نفرت کرتے تھے!
اُنہیں ہر اُس شے سے نفرت تھی جو جدت اور تجریت کی حامل تھی!
وہ خود جدید علوم وٹیکنالوجی سے نہ صرف مستفید ہوتے بلکہ ہر طرح سے اُس پہ انحصار کرتے تھے۔۔۔
جدید ترین اسلحہ ،جیپ،جہاز ،لیپ ٹاپ ، انٹیر نیٹ یہ سب اُنکے بے عیب جاسوسی نظام کے معاون و مددگار ہتھیار تھے!
یہ دورُخی ورطہ حیرت میں مبتلا کردیتی کہ کیا واقعی جہالت اور تعصب اُنکا خدا تھا؟ ورنہ وہ کو نسا خدا تھا جسکے نام پہ وہ جنگ کرنے کے دعوے دار تھے؟
بھلا جو کسی تاریک غار میں چھپا بیٹھا ہو اور انسان کو اسی غار میں پہنچا نے کی زمہ داری لے وہ خدا ئے واحد و لا شریک کیسے ہو سکتا تھا!!!!
یہ وہ لوگ تھے جو ہر دور کے بغداد کو اجاڑنے لے لیے بھیجے گئے تھے۔۔۔
اِن تاریک غاروالوں کی روشن خیالوں سے بہت جنگ ہوئی طویل جنگ ، وہی جنگ جو شروع سے چلی آرہی ہے!
اِتحاد دونوں کی صفوں میں نہیں تھا!
تاریک غار پسند بھی اپنے مفاد و نظر یے کی نباء پہ آپس میں نفرت وعنا د کا شکار تھے، پس پردہ وہ ایک دوسرے کو غلط اور کافر کہتے تھے!
مگر ان کے اُوپر جِن نادیدہ قوتوں کا سایہ تھا وہ معیشت کے خدا کا اِستعمال جانتے تھے!
معیشت کا خدا اُنکو جنگ کے نام پہ اِک صف پہ لے ہی آیا!
اور پھر اِک خونریز جنگ کا آغاز ہوا!
اک طویل دور جیسے کسی سرنگ میں داخل ہوگیا!!!
ابتدا میں اِس جنگ نے مقدس چولا پہن کر عام و خاص کے دِل جیت لیے تھے!
مگر پھر خون ،با رود ، لا شوں کے قیمہ بد نوں کی سڑاند معاشروں کو نگلنے لگی!
تب روشن خیالوں کو کچھ ہوش آیا مگر بہت دیر ہو چکی تھی!
اِنسان کو دوبا رہ تاریک غار میں دھکیلنے والے غالب آنے لگے تھے!!!!
وہ ہر مقام جہاں اِنسانیت پناہ لے سکتی تھی اُنہوں نے اُسے تاراج کردیا!
ہر وہ مقام جہاں اِنسانیت پنپ سکتی تھی، روشنی لے سکتی تھی ڈھا دیا گیا!!
گرجے،مندر،مسجد،امام بارگاہیں،مزار اڑا دیے گیے!!!
سکول اپنے ملبوں سمیت ننھی کلیوں کے مزار بن گئے !
ہسپتال بیماروں کی جگہ مردہ خانوں میں بدل گئے!
آرٹ کوبُت کہکر بُت شکن پیدا کئے گئے!
یہ بُت شکن غرور وزعم کے نئے بت ،نیئے خدا بن گئے
ان نئے خداؤں نے آرٹ ،فن، ادب کوسزائے موت سنا دی!
انسان کو زندگی کے جرم میں موسیقی ،رنگ ، خو شبو ،فن و ادب کی ہر صنف سے محروم کر نے کا سزا وار ٹھہرا دیا گیا!!!
عورتوں کی اِک جماعت دعوی کر تی تھی کہ صِرف عورت پہ پردے کا دعوی اِنسان کی فطرت سے انحراف ہے، پردہ دار عورت اپنی نظر سے مرد کو دیکھنے میں آزاد ہے، مر د کو دیکھ کر عورت کا دِل بھی بدی پر مائل ہو سکتا ہے بالکل اُسی طرح جیسے زلیخا کا یو سف ؑ کو دیکھکر ہوا تھا تو یہ دعویٰ کیا اپنی بنیادوں میں متصادم نہیں کہ اِک جانب ہر بدی کی زمہ دار عورت، دوسری جانب اِس قدر اِطمینان، اعتماد ولا پروا ہی کہ عورت کو
پا بندی میں جکڑکر گناہ کے خاتمہ کا دعوی؟؟؟؟!
سو اِن مردوں کو بھی لازم ٹھہرایا جائے کہ وہ خود پہ نقاب ڈالیں!
جنگ کے زمانے میں یہ دعوی اِک بُہت بڑا دھماکہ تھا،نظام و نظریے کے خلاف عظیم سازش تھی!
سو سزا کے طور پر ایسی عورتوں کو سرعام کوڑے مارے گئے!
پھانسیاں دی گںپر اور جو باقی بچ گیءں اُن پہ کڑے پہرے بیٹھا دیے گئے اور بیڑیاں ڈال دی گیءں!!!
اہتمام کیا گیا کہ کہیں سے روشنی ،تعلیم اُن کو چھوُ نہ سکے!!!
ان کو اخلاقیات کی گھسی پٹی چکی پہ گہیوں پیسنے کا حکم ملا!
زیا دہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کا حکم !
اتنے حکم کہ وہ آزادی کا مفہوم بھول جائے، لفظ حق کوفراموش کر دے!
ان تاریک خیالوں نے پورا اہتمام کیا کہ جدت وروشن خیالی کی تصویر مٹا دی جائے
چن چن کر ادیبوں، مصوروں، لکھاریوں اور دانش وروں کو تہہ تیغ کردیا گیا!
جو بچ گئے وہ ہجرت کر گئے خوف کے مارے !
عجائب گھروں کو مسمار کر دیا گیا تاکہ روشن خیالی اور اِنسانی تاریخی عظمت و سفر کا ہر نشان مٹا دیا جائے!
وہ چاہتے تھے کہ لوگ بس ایک ان دیکھے خدا سے اِتنا ڈر جایءں کہ دنیا کی ہر رغبت چھوڑ کر صرف گردان کرنا سیکھ جائیں! وہ طوعاوکر ہا کی تفسیر بن جایءں!
انہوں نے اِک عہد کی ہر نشانی ، ہر اِستعارہ ،ہر علامت مٹا دی!
ہر چہرے ، ہر عمارت ، ہر ادارے کو ایک ہی شناخت دیکر سب کچھ بے شناخت کردیا!!!
ہر باغی آواز کا گلہ گھونٹ دیاگیا!
ہر وہ کو کھ بانجھ کر دی گئی جہاں سے کسی نئے خیال، سوچ اور روشنی کا جنم ہو سکتا تھا!
بہت خون ریزی کے بعد ۔۔۔۔
اک طویل تاریکی کے سفر کے بعد۔۔ وہ اپنی مرضی کے تابع خوف و جبر میں ڈھلا اِک نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوہی گئے!
اک ایسا نظام جسکے خلاف اک ہلکی سی سرگوشی بھی بغاوت ٹھہرتی اور ایک درد ناک موت کا اعلامیہ ہو سکتی تھی! !!
ایک ایسا نظام جسکا صرف قصیدہ و مدح سرائی ہی گوارا تھی!!!
اِک ایسا نظام جہاں کسی بھی تہذیبی رچاؤ یا تصادم کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی تھی!!!
اپنے تیئیں اب وہ مطمئن تھے کہ اک نسل ہجرت کر چکی تھی اور ایک نسل اِس جبر کے درخت پہ اپنا پھل دے چکی تھی۔۔۔
آنے والی نئی نسل جس نے روشنی و آزادی کا چہرہ کبھی نہیں دیکھا تھا!!!!
وہ ایسے اِداروں میں تعلیم پاتے تھے جہاں کسی بھی شے کی شناخت یاچہرہ رکھنا اِک گناہ سمجھا جاتا تھا۔۔۔
سو اُن بچوں کی کتاب سے لیکر قلم تراش تک ہر شے بے چہرہ و تصویر و تصورسے خالی تھی!!!!
مگر پھربھی انہونی ہوگئی!!!
ایک ایسا واقعہ جِس نے خوف وجبر کے نظام پہ لرزہ طاری کردیا۱
معلم اعلیٰ شہر اور صوبے کے منتظم اعلیٰ کیساتھ مدرسوں کے معمول کے دورے پہ تھا ۔ یہ دورے نہ صرف معمول تھے بلکہ اِنکو اِتنا خُفیہ رکھا جاتا کہ اُساتذہ اور طلباء و طالبات کو بھنک بھی نہ پڑتی اور اُنکے معمولات کی معمولی سے معمولی خبر بھی منصوبہ سازوں تک پہنچ جاتی۔۔۔
اپنے اِسی بے عیب اور کڑے نظام کے تحت وہ مطمئن تھے کہ اِس سے انحراف و بغاوت ممکن ہی نہیں!
مگر اُس دن انہونی ہوگئی!!!
دورے کے وقت منتظمین اعلیٰ اور معلم اعلیٰ نے دیکھا کہ بچوں کی ایک ٹولی مل کر ایک قدیم لوک گیت گا رہی تھی اور ایک بچہ پنسل سے اِک بڑے سے سفید کاغذ پہ ایک ایسے بچے کی تصویر بنا رہا تھاجس کے سر پہ فاختہ چونچ میں زیتون لیے آرام سے گھونسلہ کیے بیٹھی تھی اور وہ بچہ ہاتھ میں اِک مشعل تھامے پوری قوت سے دوڑرہا تھا!
جبر ، خوف اور ظلم حیرت سے منجمد ظلمت کی جانب بڑھتی اِس روشنی کو دیکھ ریا تھا!!!