البیلا روپ
اس نا خوشگوار خبر نے ذہن و دل میں اک ہلچل سی مچا دی ہے اور یا دوں کی اک لڑی جیسے کھل جا ئے اور دا نہ دا نہ گرتی یا دیں ہا تھوں کے پیا لے میں اکٹھی ہو تی جا ئیں ۔ یا د پڑتا ہے کہ بہت چھوٹی سی تھی جب کسی بھی شا دی پہ جا نے کاوا حد مقصد و شو ق یہی ہو تا تھا کہ مجھے دلہن کے پاس بٹھا دیا جا ئے اور پھر میں ا ک وفورشوق سے اسے بیٹھی تکتی رہوں اور آہستہ آہستہ کبھی ذرا سا اُس کے لباسِ عروسی کو یا اس کے مہندی رچے ہا تھوں کو ان میں پہنی انگوٹھیوں کو ، مہندی سے سجے پا ؤں میں چمکتی سنہری نئی نکو ر جوتی کو ذرا ذرا سا چھو کر دیکھ لوں اور کوئی دلہن کو ئی جا ن پہچا ن کی یا خوش مزاج ہو تی تو اس کے ما تھے کے ٹیکے کو بہا نے سے ٹھیک کر دیا ۔ کبھی گلو بند کو اس معصو م ہے لمس میں صرف اس چھوٹی سی بچی کی محبت و عقیدت ہو تی اور دلہن کے سجے سنورے کنوا رے روپ میں دلہنیا پے:’’ اک عجب خوشبو ، مقنا طیسی خوشبو جو اُس کمسن بچی کی ما ورا ئی نا ک سو نگھتی تھی شا ید اسی لیے ہر شا دی پر جا نے سے پہلے ماں سے اِک ہی یقین دہا نی لیا کر تی تھی :’’ مجھے دلہن کے پاس بٹھا ئیں گی نا ‘‘اور ما ں :’’ ہاں! ہاں!‘‘ کرتی جلدی جلدی تیا ر ہو نے کا کہتی اور کبھی اس فر ما ئش پر چڑ کر اک دھمو کا بھی جڑ دیتی مگر میں پھر بھی ہمت نہ ہا رتی، شادی وا لے گھر پہنچ کر ماں کے دو پٹے کے پلو سے جڑی با ر با ر ملتجی نگا ہوں سے بس اِک ہی خوا ہش کیے چلی جا تی :’’ مجھے دلہن کے پاس لے جا ئیں نا ، مجھے دلہن کے پاس بٹھا دیں نا ‘‘ اور پھر ماں مجھے دلہن کے خاص کمرے میں لیجا کر جب اونچی آوازمیں مذاقامیری فر ما ئش کا تذ کرہ کر کے پا س بٹھا نے کو کہتی اور میری ماں کی سبھی بہت عزت کر تے تھے کون اُس کا کہا ٹالتا مگر دلہن کے آس پاس بیٹھی سکھیاں اس فر ما ئش پر اک قہقہہ لگا دیتیں اور میں شرم سے سرخ پڑ جا تی مگر یوں مجھے دلہن کی قریبی سیٹ مل جا تی اور پھر میں بس اُسے ٹکٹکی با ندھے دیکھے چلی جا تی ۔ اس کا ہار سنگھا ر ، اس کے تا ثرات ، ہر چیز پر میری نظر ہو تی اور بس میں خا موشی سے اِک عقیدت سے اُسے تکتی جذ ب کرتی چلی جا تی ! بھلا اِتنا والہا نہ پن اوروفور سے تو اسے اس کا دلہا بھی نہ تکتا ہوگا آج یہ سوچتی ہو ں میں !بلکہ سو چتی ہوں کہ آخریہ کیسا عجب شوق تھا۔ بچے شا دیوں پر جا کر کھیل کود میں ، ٹھیلے پر چیزیں کھانے میں مصروف ہو جا تے اور میرا شوق تو بس اِک ہی تھا کہ دلہن کے سا تھ وا لی سیٹ مِل جا ئے اور میں دلہن کو اس کی خوشبوکوخود میں جذ ب کرتی رہوں!دلہن پیا ری اور معصو م ہے تو میرے وا رے نیا رے نہیں بھی پیا ری تو کوئی با ت نہیں ، میرے نوٹ کر نے اورغور کرنے کو اور بہت سی با تیں ہو تی تھیں جو میرا معصو م بچپن اپنے توا نا دما غ میں بھرتا رہتا تھا ۔
ماں اکثر کہا کرتی تھی:’’جو لڑکیاں نیک اور پا رسا ہو تی ہیں سا دگی پسند ہو تی ہیں جب دلہن بنتی ہیں تو اُن پر سچا رو پ اُترتا ہے ‘‘۔ میں کہتی :’’ ہاں! میک اپ اور اچھے کپڑے اور زیو ر جو پہنا ہوتا ہے‘‘،ما ں کہتی: نہیں ! میک اَپ کر نا کچھ اور ہو تا ہے اوررُوپ اُترنا کچھ اور ہوتا ہے ۔ بچے ، میری بیٹی دیکھ پا نی جتنا شفاف ہوتا ہے چا ند کا عکس بھی اُتنا ہی شفاف اترتا ہے ۔ اک نیک روح ، نیک بدن ، جب ہا ر سنگھا ر کر کے اپنے پیا کو ملنے اُس کے گھر رخصت ہوتی ہے تو اس کی چھب نرا لی ہو تی ہے فرق گدلے اور اجلے پانی کا ہے ‘‘۔
یہ با تیں اس وقت تو سمجھ میں نہ آتی تھیں آج بہت وا ضح ہیں روزِ روشن کی طرح عیاں ! میں وہی تھی اور میرا شوق بھی وہی کہ شا دی وا لے گھر دلہن کے پاس بیٹھنا ہے اوربہت سی دلہنوں کو بہت قریب سے دیکھاکچھ اچھی لگیں اور کچھ نہیں ! مگر لمبا تا ثر کسی نے نہیں چھوڑا مجھ پر ۔
مگر یوں ہوا کہ امی کی سیکنڈ کزن کی شادی تھی ہم شا دی پہ وقت سے کا فی پہلے پہنچ گئے ۔ امی کو میری فر ما ئش کا بھی پتہ تھا اور خا ندا ن میں میرے قریبی رشتہ دا ر بھی میرے اس شوق سے وا قف تھے ماں مجھے دلہن کے پاس بٹھا کر اپنے کا موں میں مصروف ہوگئیں ۔ ابھی دلہن تیا ر نہیں تھی وہ سا دے سے ملگجے ما یوں کے لباس میں تھی ۔ آج سے پچیس تیس سا ل پہلے ما یوں پہ یہ تا م جھا م کب ہو تے تھے ،بلکہ ما یوں کی دلہن کئی روز کی میلی کچیلی تیل میں ڈوبی ہو تی تھی ۔ میں نے اپنی اس رشتہ کی خا لہ کو دیکھا ، سا دہ سا چہرہ رنگ منا سب سا عا م سے نقوش ، رو ئی ہو ئی سو جھی آنکھیں بھیگے با ل غا لباً کچھ دیر قبل نہا ئی تھی ۔ میرے سا منے ہی لڑکیوں نے اس کے گرد چا دریں تا ن لیں کہ وہ ل باس عروسی پہن لے ۔ جب چا دریں ہٹیں تو خا لہ لا ل گوٹے سے بھرے لباس میں تھی ۔ پھر میرے سا منے ہی لڑکی نے ان کا میک اَپ شروع کر دیا ۔ بیس اسٹک منہ پر ملی میک اَپ اتنے بھونڈے طریقے سے کیا جا رہا تھا کہ میں جو اِک کم سن سی آٹھ نو سا ل کی بچی تھی ۔ اس سے بہتر میک اَپ کر لیتی تھی ۔ مگر میں نے محسوس کیا بہت وا ضح طور پر کہ اس معمو لی سے ہا ر سنگھار اورعروسی لباس میں ایک عجب انو کھا نیا را رو پ نکھر کر سا منے آرہا ہے ۔ شفا ف پا نی میں چا ند اتر رہا تھا ۔ میک اپ مکمل ہوا آنکھوں کے اوپر نیل پالش سے چھوٹے چھوٹے بندی سے ٹیکے لگائے گئے نتھ پہنا کر دوپٹا اوڑھا دیا ، اب سا منے جو دلہن تھی آج پچیس سا ل ہو گئے دیکھے ہوئے مگر نہیں بھولتی اس دن میں نے جا نا کہ ہا ر سنگھا ر اور روپ میں کیا فرق ہو تا ہے خا لہ اتنی پیا ری لگ رہی تھی کہ نظر نہیں ٹھہرتی تھی جس نے دیکھا اسی نے کہا: ’’کوثر پہ بہت روپ آیا ہے ، بھئی تھی ہی اتنی نیک، اتنی سا دی ،روپ توآنا ہی تھا‘‘۔
اپنی ماں کی یہ با ت سچ ثا بت ہو تے دیکھ کر میں نے لا شعوری طور پر بہت سا دہ رہنا شروع کر دیا تھا ۔ دلہن بننا دلہن کی طرح سجنا شا ید ہر لڑ کی کا سپنا ہوتا ہے میرا بھی تھا مگر میرے من میں یہ آرزو بھی تھی پیا ملن کو جب جا ؤں تو میرے ہا ر سنگھا ر سے پھوٹتا میرا رو پ چندن روپ میری گوا ہی بن جا ئے یوں لگے کہ میری روح اِ ک نئے بدن میں دا خل ہو گئی ہے اور پھرہُوا بھی یو نہی میں نے اپنا من شفاف پا نی سا رکھا کو ئی عکس نہیں بننے دیا اور جب چا ند اپنے جو بن پر آیا تو پورے کا پورا میر ے من کی جھیل پر اُتر آیا ۔
میں دلہن بنی تو ہر کسی نے کہا :’’ دلہن اتنی پیا ری و نیا ری ہے کہ اتنا روپ کم کم کسی پر ٓآتے دیکھا ہے ۔ بہت سی پیا ری لڑ کیاں دلہن بن کر پیا ری ہی لگتی ہیں مگر سحر ۔۔۔۔۔۔اس کے روپ کی چھب نرا لی ہے ‘‘۔
یہ جملے مجھے کتنا شا نت کر گئے گویا گوا ہی بن گئے میری ۔ میرا کا م تھا من کے شیشے کی شفا فیت کہ چا ند اُتا ر لوں ، چاند رو پ اتا ر کر ، ہا ر سنگھا ر کر میں پیا دیس آئی، اب پیا جانے اور اس کا کا م کہ وہ شیشے کو شفاف رکھے یا گدلا کردے ۔ سوئیکا ر کر لے تو اجر اور جو رد کردے تو رائیگا نی اور سرا ب سفر!
آج اس با ت کو کئی برس گزربیت گئے ہیں۔ یہ سب وا قعا ت وقت کی گرد و ریت میں جانے کہاں مد فو ن پڑے تھے ۔ کسی پرا نے کپڑوں کے ٹرنک میں پرانے کپڑوں کی طرح دبے ۔ کل ثر یا آپا نے فو ن کیا تو کہنے لگیں :
’’اے سحر! کہاں ہوتی ہو بھئی دوسرے شہر ہو نے کا یہ مطلب تو نہیں کہ سب رشتے نا طوں کو بھو ل جا ؤ ۔ ارے تمہیں تو پتہ بھی نہیں کہ کوثر کا انتقا ل ہو گیا ، پا نچ ما ہ ہوگئے ۔ تمہیں دیکھا نہیں تو سو چا اطلا ع کردوں لگتا ہے تمہیں کسی نے بتا یا نیںن ۔ ارے بھئی اسے ہی کہتے ہیں آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ، ماں با پ تو رہے نہیں بس تو !‘‘
وہ اپنی دھن میں جا نے کیا کیا کہتی رہیں مگر میرا دما غ تو سا ئیں سا ئیں کرنے لگا۔ وہیں اٹک گیا کہ خالہ کو ثر کا انتقا ل ہو گیا ہائیں یہ کیسے ہو گیا ، ابھی کل کی ہی تو با ت ہے جب وہ اِ ک نو کھا نیا را روپ اوڑھے ہار سنگھا ر کیے بیٹھی تھیں ۔ سوچ سو چ کر دماغ کی نسیں پھٹنے لگیں اور تھوڑی دیر بعد ہی چھم سے آنکھوں کے آگے وہ اپنے کو مل رو پ کے سا تھ سامنے آجا تیں ۔ میں تو آخری لمحوں میں اُن کا دیدار بھی نہیں کرسکی تھی ۔ اِک افسوس نے دل میں جنم لیا اور پھر جیسے اِک عجیب سی سوچ جیسے کسی برقی لہر کی طرح اوپر سے نیچے تک مجھے جھنجھوڑ گئی میں نے سو چا اِک شفاف پا نی سی روح چا ند کو اپنے اندر جذ ب کرتی، منعکس کر تی اس خا کی بد ن کو چھوڑ کر جب ایک نئی منزل کی جا نب ایک نئے وجود میں ڈھلنے کو اک لمبے سفر پہ نکلی ہو گی تو البیلے روپ کی کیا چھب ہو گی؟ یہ کیسی عجب گوا ہی ہو گی !