مولوی صا حب کی ڈا ک

مو لو ی صا حب نے اک بڑا سا بوری نما تھیلا جو کہ ڈا ک سے آئے خطوط سے بھرا تھا ۔ تھا متے ہوئے بد دلی سے میگز ین ایڈ یٹر کی ہدا یت کو سنا اور اپنے آفس میں آکر کر سی پر بیٹھ گئے اور تھیلا میز پر دھر دیا ۔ ان کا غصہ بے زا ری ان کے چہرے سے مُتر شخ تھا ۔ وہ بڑبڑائے ۔
’’لا حول ولا کیا ہوگیا ہے لوگوں کو ایک طرف لا دینی فحا شی عریانی اور اخلاقی قدروں کا اس قدر زوا ل اور دوسری طرف اتنے غیر اہم اور چھوٹے چھوٹے مسئلوں کے لیے سوا ل پو چھنا گو یا ہرکا م ہر سا نس اسلا م کے لئے وقف ہے ۔ گو یا قوم موسیٰ ہو گئی ہے یہ قوم بھی ‘‘۔
ان کا آفس بوائے ان کی بڑ بڑاہٹ پر ہنسا: ’’ارے مو لو ی صا حب آپ کیوں خفا ہو تے ہیں ؟ آخر اسی کا م کے تو آپ کو دا م و شہرت دو نوں مِل رہے ہیں آپ تو دعا کیجئے کہ لوگ آپ کو مزید مسا ئل میں گھر کر خوب سوا ل بھیجیں ‘‘۔
با ت تو سچ تھی مو لوی صا حب نے خا مو شی سے اُسے گھورا اور رو ز مرہ کی ہدا یا ت دیتے ہو ئے کہا :’’ اچھا با تیں نہ بنا ؤ وہ تما م خط بمعہ نا م و پتہ اکٹھے کرو جن میں تقریباً ایک سے مسا ئل و سوا ل ہیں جن کا جوا ب دیا جا سکے وہ سر ہلا کر اپنے کام میں جت گیا ۔ مو لوی صاحب خو د بھی خطوط دیکھنے لگے ، وہی عا م سے روزمرہ کے مسئلے مسائل چھوٹے چھوٹیکاموں اور با توں پر فتو ے طلب کر کے دین کو تنگ کرنے کی آرزو ، مولوی صا حب نے کچھ خطوط اور اُن کے جوا ب سمیٹے معاً جو خط ہا تھ لگا کر انہیں کا فی دلچسپ لگا انہوں نے پڑھنا شروع کیا ۔ ؎


از لا ہور
محترم مولوی صا حب
السلا م علیکم !
کے بعد عرض ہے کہ میں آپ سے مشورہ طلب کرنا چا ہتا ہوں میرا مسئلہ کچھ ذا تی سا ہے میری بیوی بہت پڑھی لکھی خا تون ہے ۔ ایم اے نفسیا ت کررکھا ہے ۔ وہ خو بصورت خوب سیرت عورت ہے ۔ سلیقہ مند بھی ہے ۔ میرے تما م اہلِ خا نہ کے ساتھ اُس کا سلوک بہت اچھا اور عمدہ ہے اُس کے حُسنِ سلو ک کے سبھی معترف ہیں ۔ مگر جا نے کیوں وہ مجھے اپنے حُسنِ سلو ک کا اہل نہیں سمجھتی میرے سا تھ اس کا رو یہ بہت سرد بلکہ بد سلو کی پر مشتمل ہے ۔ وہ میرے سا تھ انتہا ئی تلخ لہجے میں با ت کرتی ہے ۔ میرے پیا ر و محبت کا جواب انتہائی سرد مہری سے دیتی ہے اذدوا جی ذمہ دا ریوں کو بس ما رے با ندھے فرض سمجھ کر سر سے اُتا ر پھینکتی ہے ۔ اس کے پاس سب کے لئے سب کچھ ہے اور میرے لیے کچھ بھی نہیں ۔
ایسا نہیں کہ وہ بد تمیزی کرے یا میرے کا م کر نے میں کو تا ہی کرے مگر اس کی زبان آنکھیں اُس کا تما م بدن اس کی نا گوا ری و بدگما نی کی دا ستا ن سُنا رہا ہُوتا ہے ۔اس کی انہی حرکا ت کی وجہ سے میں نے تما م ترلیا قت کے با وجود اُسے جا ب کر نے کی اجا زت نہیں دی گو کہ اس پر اس نے کا فی وا ویلا کیا مگر آخر اسے ہا ر ما ننی پڑی ، میں خو فزدہ تھا کہ ایسی عورت جو اَب مجھے کچھ نہیں سمجھتی خود کما نے لگے گی تو میرا کیا حا ل کرے گی ؟
میں نے اس کے اس رویے پر بہت غو ر کیا ہے اُسے سمجھا نے کی کو شش کی ہے مگر اس کے مزا ج و رو یے میں کِسی صورت بہتری نہیں آتی ۔ یہ صورتحا ل میرے لئے از حد تکلیف دہ ہے اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں اُس کے سا تھ کیا سلو ک کروں ؟ وہ بچوں کے حق میں بہت اچھی ماں ہے میرے وا لدین کے لئے اچھی بہو ، بہن بھا ئیوں کے لیے اچھی بھابھی مگر مجھے وہ کیوں محبت و حُسن سلوک کا حقدار نہیں سمجھتی اور ایسی بیوی کے لئے کیا حکم ہے اور مجھے مشورہ دیجئے کہ مَیں کِس حد تک جا کر سمجھا سکتا ہوں ؟ کیا سختی کروں ؟ خود سے الگ کر نے میں بھی خا ندا نی مسا ئل سے دو چا ر ہوتا ہوں ۔وہ میری با ت کو کِسی صورت سمجھنے کو تیا ر نہیں اُس کے رو یے سے تو یہی محسوس ہو تا ہے کہ وہ مجھے پسند نہیں کرتی اور مجھے سمجھنا ہی نہیں چا ہتی مگر پھر اس کا دیگر افرا د کے سا تھ رو یہ مجھے اُلجھن میں ڈا لتا ہے مجھے مشورہ دیجئے کہ میں اِ س صورتحال میں کیا کروں اور ایسی عورت کیسا تھ کیا معا ملہ ہو نا چا ہیے اور اللہ اور اس کے رسو ل ﷺ کی را ہنمائی میں بتا ئیے کہ ایسی عورت کا کیا مقا م ہے ۔
والسلام
مخلص
حشمت اللہ


مو لوی صا حب خط بلند آوا ز میں پڑھ رہے تھے آفس بوا ئے خط سُن کر ہنسا وا ہ مولا یہ تیرے بندے ، بھا ئی تُو خود جو مرضی ہو پر اپنے وا سطے تجھے ایک پیکج میں سب کچھ چاہیے ’’ہاں‘‘۔
مو لو ی صا حب نے چشمے کے پیچھے سے اسے گھورا مُنہ ہی منہ میں لا حول اور استغفراللہ پڑھا اور جوا ب لکھنے لگے :
جوا ب: حشمت اللہ صاحب جیسا کہ آپ نے بتایا کہ آپ کی زو جہ محترمہ بہت سے اوصاف کی مالک ہیں خوب صو رت و خو ب سیرت ہیں اہلِ خا نہ اور بچوں کےمعاملے میں بہت عمدہ ہیں ۔ آپ غو ر کیجئے کہ آپ کے سا تھ ان کا رو یہ کس بای پر ناروا ہے ۔ ان کی شکا یت کو دُور کرنے کی کوشش کیجئے محبت اور نر می سے معا ملے کو سلجھا ئیے کہ عورت میں ٹیڑھ پن پیدا ئشی و فطرتی ہے اور وہ نا قص العقل ہے ۔ اس با ت کو ملحوظ رکھ کر اپنی بیگم صا حبہ کو سمجھا ئیے اور اُن کے باقی اوصا ف کو مدِ نظر رکھ کر نر می کی کو شش کیجئے اور جو وہ پھر بھی نہ سمجھیں تو آپ سختی بھی کر سکتے ہیں آپ کا ہر حکم بجا لا نا ان پر لا ز م وہ فر ض ہے اور ایسی عورت کو چا ہے وہ کتنے اوصا ف کی ما لک کیوں نہ ہو اگر اس کا شوہر اُس سے را ضی نہیں تو وہ اپنا ٹھکا نہ جہنم کرلے ، یہی اللہ اور اس کا رسول ﷺ کہتا ہے کہ ،’’ایسی عورت جنت کی خو شبو بھی نہ پا ئے گی اور جنتی عورتوں کے لئے بشا رت ہے کہ اُنہیں ان کے شو ہر وں کودی جا نے والی حُوروں کا سردار بنا دیا جا ئے گا ۔ اِسی با ت سے آپ کی بیو ی کو سمجھ لینا چا ہیے کہ اللہ نے شوہر کا مر تبہ کِتنا بُلند رکھا ہے ۔ وہ عورت کے لیے اس کے با پ سے بھی زیا دہ محتر م ہے آپ کی بیو ی کو تو بہ کر کے آپ کی تا بعدا ری اختیا ر کر نی چا ہیے‘‘۔
مو لو ی صا حب نے جوا ب لکھ لینے کے بعد حسبِ معمو ل تو بہ استغفا ر پڑ ھی اور اس ان دیکھی عورت پر نفر ین بھیجی ۔ بہت دِن گز ر گئے بہت سے خطوط آئے اور اُن کے جوابات لکھے گئے مولوی صا حب کو بھو ل گیا کہ کیا سوا ل تھا کیا جَوا ب دیا گیا تھا اور اِ س سَوا ل کے نتیجے میں کتنے سوا لوں نے جنم لینا تھا ۔
ٍ اس دن بھی مو لوی صاحب اپنی ڈھیروں ڈا ک کے سا تھ اکتا ئے ہو ئے اور بولائے بیٹھے تھے ۔ یہ ڈا ک کا سلسلہ بڑا پُرا نا تھا اور مو لوی صا حب کی سٹاف اور ایڈیٹر بلکہ سابقہ ایڈیٹر ز سے بھی اچھی یا د اللہ تھی ۔ اُن کی سہولت کہ وہ یہاں بیٹھ کر جوا ب دیں یا گھر لے جا ئیں ۔ وہ آفس میں بیٹھتے عمو ماًگپ شپ بھی رہتی اور کا م بھی سمٹ جاتا ۔اُس دِن بھی وہ خطوط ان کے جوا با ت کو سمیٹ رہے تھے اور اُن کی بُڑ بُڑاہٹوں سے آفس بوا ئے لطف اُٹھا رہا تھا۔ اِسی دورا ن ایڈیٹر صا حب بھی وہاں آبیٹھے ۔ مو لوی صاحب خط دیکھ رہے تھے کچھ اِی میل بھی جوا ب طلب تھے کہ اچا نک ایک خط پڑ ھ کر غصے سے اُن کا چہرہ لا ل بھبھو کا ہو گیا ۔ انہوں نے لا حول پڑھ کر اُسے تروڑ مروڑ کر پھینک دیا ۔ ایڈیٹر نے حیرت سے دیکھا اور پوچھتے ہو ئے وہ خط اُٹھا لیا ۔


محتر م مو لو ی صا حب
السلا م علیکم!
کے بعد عرض ہے کہ آپ نے میرے شوہر کو چند رو ز پیشتر جوا ب دیا تھا جوا ب کیا تھا جہنم کے تما م دروا زوں میں سے بس یہ آخری بند دروا زہ بھی مجھ پر کھو ل دیا تھا ۔ آپ نے فر ما یا کہ عورت نا قص العقل اور پیدا ئشی ٹیڑھ پن کی حا مل ہے ! میں آپ سے کچھ سوا ل پوچھنا چا ہتی ہوں:
1۔ کیا وہ مرد سے زیا دہ بلا صلا حیت عقل و فہم اور تعلیم سے آرستہ ہو دینی فہم میں بھی اُس سے زیا دہ ہو کیا وہ تب بھی نا قص العقل ہے ؟
2۔ اگر وہ بہرحا ل میں نا قص العقل ہے ہے تو تا ریخ میں بے شما ر خوا تین بشمول عائشہؓ کے پا س لو گ و مرد حضرات بھی دینی فہم پا نے کے لئے آتے تھے کیوں آتے تھے؟
3۔ نا قص عقل کا مطلب عقل میں مخصوص کمی اگر حقیقت میں ایسا ہے تو موقع مِلنے پر عورت ہر میدا ن میں مرد کے برا بر کیوں کھڑی ہے ؟
4۔ با لفرض محا ل یہ مان لیا جا ئے کہ عورت نا قص العقل ہے تو کیا دُنیا میں کوئی ایسیناقص مشین ہے جس میں عمدہ اِن پٹ ڈالا جا ئے اور عمدہ پرو ڈکشن حا صل کرلی جائے تو پھر تو مر د کی اپنی عقلی حیثیت مشکو ک نہ ہو جا ئے گی؟
5۔ عَورت کا فر ض اپنے شو ہر کو را ضی رکھنا کیا مرد کا فرض نہیں کہ وہ بیوی کو را ضی رکھے ؟
6۔ اور اگر بیوی کو رضا کی کو ئی اہمیت نہیں تو اللہ نے اُسے دِل و دماغ سے کیوں نوازانا؟ نکا ح میں اس کی رضا کو کیوں اہمیت دی ؟
7۔ کیانا را ض بیوی کاشوہر جہنمی نہیں مولوی صا حب ؟
8۔ عورت کا فرض کہ وہ مرد کا دِل لبھا ئے پر چا ئے بنے سنورے تو کیا وہ اپنے مرد سے یہ خوا ہش نہیں کر سکتی کہ تم اپنے حُلیے میں میری پسند کو شا مل کرو اور اگر جوا ب نہیں ہے تو پھر وہ اپنی یہ جا ئز خوا ہش کِس مرد پر پوری کرے ؟
9۔ اور مَرد کی دین دا ری صرف دا ڑھی ، نماز ، تسبیح اور کو ئی مسئلہ ہو نے پر مو لوی سے فتویٰ لینے پر ہی مختص کیوں ہے ؟ یہ اسلا م آگے بڑھ کر اُس کے نفس اور اخلاق میں کیوں دا خل نہیں ہوتا ؟ وہ عورت کو انسا ن سمجھنے کا ظرف کیوں پیدا نہیں کرپا تا ؟
10۔ ایک عورت اُس مرد کے تما م رشتوں کو احسن طر یقے سے نبھا کر اپنے لیے عز ت محبت و تکر یم کا و ہ مقا م جس کی اہل ہے ما نگے اور ما نگنے پر نہ ملے اپنے دِل کو تا لا لگا کر محبت کی چا بی گھما بیٹھے توپھر وہ دِل کا تا لا کیسے کھو لے ؟
11۔ اِک طلا ق زبا ن کی ہو تی ہے اور جب دِ ل نا را ض ہو جا ئے اور اس مقا م کو چُھوآئے جہا ں سے وا پسی نا ممکن ہو تی ہے تو دِ ل طلا ق دے بیٹھتا ہے ۔ اِ س طلاق پر آپ کو نسا فتویٰ لگا ئیں گے ؟
12۔ اِ ک سوا ل یہ بھی ہے کہ عو رت اپنی تما م خو بیوں و اوصا ف کیسا تھ محض ایک خا میکی بناز پر دو زخی ٹھہرا ئی جا رہی ہے تو کیا دُنیا میں کوئی ایک ایسا سُورما مرد ہے جو بشری کمز وری سے خا لی ہو ؟
13۔ مولو ی صا حب آخری سوا ل آپ سے یہ ہے کہ عورت کی عظمت آپ کے نزدیک یہ ہے کہ وہ مرد کو دی جا نے وا لی حوروں کی بھی سردار ہو گی لیکن جِس عورت کا شوہر جہنمی ہو گا تو کیا اللہ اُس کو جہنم سے نکا ل کرپھر اُسی کے سر پر مسلط کر دے گا ؟
میں جانتی ہُوں آپ میرے اِن سوا لوں کا کبھی جوا ب نہیں دیں گے بلکہ مجھ پر کفر کا فتویٰ لگا دیں گے مگر مجھے آپ کو یہ بتا نا مقصود تھاکہ آج کی تعلیم یا فتہ عورت کیسے سو چتی ہے؟!
والسلا م
زینب فا طمہ


ایڈیٹر خط پڑ ھ کر دل کھو ل کر ہنسا اور بو لا :’’ مو لوی صا حب یہ خا تون آپ کو مشکل میں ڈا لے گی ، دراصل آج کے مرد کی تربیت ہی ذہین عورت کے حسا ب سے نہیں ہوئی ‘‘ مولوی صاحب کا چہرہ غصے سے مز ید سُرخ ہُوا ’’ایسے وا ہیات اور کفر یہ خطوط کا جوا ب دینے کی ضرورت ہی کیا ہے ‘‘ ایڈیٹر نے پَل بھر کو سو چا ، اپنے میگز ین کے روشن خیا ل پہلو کا خیا ل اور ایسا متضا د خط میگز ین کو پَر لگ جا ئیں گے ، حِسا ب کتا ب مکمل ، ایڈیٹر اِک اجنبی چہرہ اوڑھ کر بو لا : ’’ نہیں یہ زیا دتی ہو گی آپ اس خط کو لازماً شا مل کر یں اور جوا ب دیں ‘‘مو لوی صا حب غُصے میں بَل کھا کر رہ گئے ،مگر مجبو ری تھی ۔ معا شی مجبو ری اپنی جگہ اور دین دا ری اپنی جگہ !
جوا ب : ’’محتر مہ !آپ کے خط کو بعنیہ ہی آپ کے خد شا ت کے بر عکس شا ئع کیا جا رہا ہے ۔ آپ کے تما متر سوا لات آپ کے مزا ج کی شدت اور الحا د کی عکا سی کر تیہیں ۔ آپ دِین کے مسا وی نعوذ ابا للہ اپنا تعبیری نظا م لا نا چا ہتی ہیں اور یہ ہر لحاظ سے قا بلِ مذمت ہے۔ مر د عورتوں کے حا کم ہیں انہیں فر ماں بر دا ری کا حکم دیا گیاہے ۔ آپ پر آپ کے شو ہر کی اطا عت فر ض اور ا ن کی خو شنودی مقدم ہے ۔ رہا مسئلہ فتویٰ کا تو فتو یٰ عمو می اور ظا ہری معا ملات پر لگا یا جا تا ہے ۔یہ با تیں شاعری و خرا فا ت میں تو اچھی لگتی ہیں دِین کا ایسی با توں سے دُور کا بھی وا سطہ نہیں دین تو سچا ئی را ستی اور اطا عت کا نا م ہے ۔ اپنے عقا ئد کو درست کر کے تو بہ کیجئے وہ اللہ رب العزت آپ کو معا ف فر ما دے گا ۔
یہ خطوط میگز ین میں ایک شدت آمیز نئی بحث چھیڑ گئے ۔ عجیب و غریب کا لزاور دھمکیاں بھی آنے لگیں وہ لوگ جو اس درد کو بھگت رہے تھے اُن کے ہمدردی بھرے خطوط۔ ای میلز اور کا لز کا نہ رُکنے وا لا سلسلہ شروع ہو گیا میگز ین کی اشا عت میں خا طر خوا ہ اِضا فہ ہو گیا۔ اسی بھیڑ بھا ڑ میں اسی سلسلے کا تیسرا اور شا ید آخری خط موصو ل ہُوا تھا ۔ یہ خط بذریعہ ایڈیٹر اُس آخری عدا لت کو لکھا گیا تھا ! ایڈ یٹر نے خط پڑ ھا کچھ دیر سو چا اورپھر اسے اشا عت کے لئے گو شۂ ادب میں بھجوا دیا خط کیا تھا درد میں ڈو بی بلکہ درد سے لتھڑی پُکا ر تھی ۔
’’میرے پیا رے اللہ سب سلا متیاں اور رحمتیں تیری ہی جا نب سے ہیں تو کیوں مجھے لگتا ہے کہ اپنی رحمتوں سے تُو نے میرے سر پر سے ہا تھ کھینچ لیا ہے ۔ آج سے ہزا روں سال پہلے بنی اسرا ئیل کے اِک شخص نے خواہش کی تھی کہ کہ تُو آ اُتر کر وہ تیری زُلف سنوارے تیری خد مت کرے اور آج اِک بنی اسمٰعیل کی بیٹی بے بس ہو کرتجھے پُکا رتی ہے کہ اُس کا تیرے سِوا کو ئی نہیں ! آ آج تُو اُتر کر آکِسی روپ میں کِسی حِسی شکل میں اور دِل مظطر پر مر ہم رکھ ! بِلا شبہ تو اُس پر قادر ہے کہ ظا ہر ہو ئے بغیر ہی مر حمت کرے مگر آج درد اس قدر سوِا ہے کہ تُو مجسم ہو یہ انو کھی خوا ہش دِل کی دیوا روں سے ٹکرا تی ہے اور میں اپنیسب آنسو دِیوا رِ گر یہ سمجھ کر تجھ پر بہا دوں تیری ذا ت کا اسمِ اعظم تھا م کر اپنے زخموں پر مرہم رکھ لوں ۔
اے اللہ ! تیرے بندوں سے سوا ل کروں تو کفر کا فتویٰ لگتا ہے تو پھر توہی بتا میں اپنے سوا ل کو کہا ں لے کر جا ؤں اگر اِن سو الوں کی کو ئی حیثیت نہیں تو پھر اِ ن کو سو چنے کے لئے یہ صلا حیت کیوں دِی تھی ؟
اے اللہ ! بے عیب تَو تُو نے کو ئی ذا ت پیدا نہیں کی تھی اگر میری ہستی عیب دا ر تھی کجی اور خا می تھی تو تیری ہی ذات کا تصرف و مظہر اِسی عیب دا ر بدن کے سا تھ میں نے تیرے اِذن سے ’’بدن‘‘ کو جنم دیا اور ممتا کی آفا قی حیثیت میں آکر مرد کو اس کی تما متر خوبیوں خا میوں کے سا تھ قبول ہی نہیں کیا اپنے سر کا تا ج بنا لیا تو پھر صرف میں کیوں اپنی کِسی خامی کی وجہ سے تیرے اس معا شرے میں مصلوب ہُوں ، کیا مرد کو تُو نے بے عیب پیدا کیا تھا ؟ کیا تُو نے مجھے شودروں کی طرح اپنے پا ؤں سے جنم دیا تھا اور مرد کو اپنے سَر سے ؟ میرے رب میرے سوا لوں کے جوا ب دے ورنہ مجھ سے سو چنے سمجھنے کی صلا حیت چھین لے !
میرے اللہ ! میرے حصے میں جو مَرد تُو نے لکھا میں نے اُسے اپنا مُقدر جا ن کر من و عن قبول کر لیا ۔ تن من سب کچھ وا را ۔ اُس کا دِیا ہر رشتہ جیئا میں نے ، میری زند گی کو بسر اُس نے کِیا وہ مرد عقل شعور فہم و ادراک و علم میں مجھ سے کمتر ہو نے کے باوجود میرا ما لک و آقا بنا رہا میں نے اس کو بھی مقدر سمجھ کر سہہ لیا کہ ادرا ک کے جہنم نما دروا زوں نے بہت سی ننگی حقیقتیں بھی مجھ پر منکشف کردیں ہیں میں جا نتی ہوں کہ عورت جنس و ہوس کے اِس با زا ر میں سب سے ارزا ں شے ہے اور زند گی کے اس بد بوا دا ر حما م میں خا ص و عا م یکسا ں مادر زاد بر ہنہ ہیں تو پھر کیا ہُوا کہ میرے حِصے میں بہت عا م سا مر د آیا مجھ جیسی عورت جِس تعلق کو کِسی بھی حسی رشتے میں محبت کی انتہا پر جا کر گوا را کر نا پسند کر تی ہو وہ خا موشی سے اس کیخواہش پر کئی سا لوں سے اُس کابستر بنی رہی کیا میں مو رنی سے بھی گئی گز ری تھی کہ اُس کا مور اس کو لبھانے کے لیے پہلے رقص کرتا ہے ؟ ایک ایسی عورت جو شا ئستہ ہوا علیٰ اطاعت گزار ہو تعلیم یافتہ ہو اچھی ماں و پورے گھر کی نو کرا نی ہو توتُو نے میرے سَچے رب کیوں ایسے مَرد کو اُس کا ما لک بنا دیا ؟ صِرف اس بنا پر کہ وہ اس کی کفا لت کرتا ہو اور اگر وہ کفا لت کا اہل نہ ہو تو؟ میرے رَ ب مجھے بتا تُو نے کِس مصلحت کے تحت ان با توں کو وا ضح نہیں کیا یا تُو نے کر دیا تیرے بندوں نے چُھپا لیا تو پھر میں کِس دروا زے پر جا کر اپنے سوا لوں کے زہر میں بجھے تیروں کو پا نی پلا ؤں ؟
میرے اللہ ! میرے حصے کی محنت چُرا کر تو نے مر د کو آجر کی طرح مجھ پر مسلط کردیا؟ میری محنت کیوں ضا ئع کردی ؟ اُس کی کو ئی قیمت ہی نہیں اِ س زند گی کے بازار میں! نوکرانی رکھے تو بھی پیسہ دے کر ، بچوں کی آیا بھی دھن ما نگے رنڈی کے پا س جا ئے تو بھی پیسہ دے اور یہ سا رے کِردار ایک جگہ جی کر اضا فی محبت و وفا دیکر بھی میری ہستی اتنی بے مایہ کیوں کر دی تُو نے مرد کے ہا تھوں ؟
میرے اللہ ! یہ سَوا ل میری ذا ت کے نہیں ، تُو آج سمجھ کہ حَوا کی بیٹی سا ئل بنی کھڑی ہے ۔ لا کھوں کروڑوں لیل و نہا ر کی گردش میں اُس کا ئنا تی لمحے میں حِسی شکل میں اُترکرآ۔جہاں صِرف تُو ہو اور میں ہُوں جب سب کچھ تجھ سے ہی ما نگنا چا ہیے تو میں نے جا نا کہ سوا لوں کے جوا ب بھی کیوں نہ تجھ سے ہی ما نگوں ؟
اس کا ئنا تی لمحے میں مَیں دیکھتی ہوں کہ میرے گلے میں لا کھوں کروڑوں سا لوں وزنی زنجیریں ہیں میرے پا ؤں اِن زنجیروں سے بھی وز نی بیڑیوں میں جکڑے ہیں ۔ میرا سینہ اِن سلا سل پا بندیوں میں ایسے جکڑا ہے کہ مَیں سا نس بھی نہیں لے پا تی ۔ میرے رب مجھے ا پنی پنا ہوں میں لے ۔ مجھے بتا کہ میرے وجود کو عورت کے بدن میں تو نے قید کیا یا پھرتیرے نام پر بننے وا لے رسم و روا جوں نے ۔
اے میرے ما لک ! اگر یہ تیرا قا نو ن ہے کہ میں تیری کم عقل حقیر مخلوق ہوں تو تُو نے یہ سلوک میرے سا تھ کیوں کیا ؟یہ کیسا بھونڈا مذا ق ہے ؟ جیسے ماں بچہ جنم دے کر خود اُسے اپنے پیروں سے کُچل دے ۔ شا ید کوئی ما ں ایسی شقی القلب ہو تی ہو گی ،مگر ماں تو محبت جیسی ہو تی ہے نہ ہر بچے کے لیے درد سہتی ہے ہر بچے سے محبت کرتی ہے اورتُو تو ستر ما ؤں سے زیادہ محبت کرنا ہے !میں بھی تو تیری تخلیق ہوں پھر کیوں اِس نفرت کا تحقیر کا شکا ر ہوں وہ نفرت وہ حقا رت جو مردوں کے اس معاشرے میں رو یوں میں کیفیت میں اعتبا ر میں اِظہار کے ہر رُخ میں چھلک چھلک جا تی ہے ؟ کیوں میرے رَب تو نے مجھے آدم کی ٹیڑھی پسلی سے پیدا کیا ؟ ٹیڑھی پسلی سے پیدا کر کے احساس کی ہر شدت درست عطا کردی ؟
حلا نکہ ادرا ک کے در وا ہو ئے تو میں نے جا نا کہ یہ ٹیڑھ پن تو اِس بنی آدم کی بقا کے لئے ضروری تھا کہ یہ ٹیڑھ پن نہیں تھا جذ با ت کی خاص حدت و شدت تھی جس میں پک کر ہی ممتا کا بدن ڈھلتا ہے ۔آخر بنی آدم کو میرے وجود میں اِک مختصر مدت کے لئے قیا م کرنا تھا، پھر مجھے اُسے اپنے خو ن میں سینچنا تھا تو اے میرے رب جِس چمن کی آبیاری میں میرا لہو شامل تھااس چمن کے سا رے خا ر میرے حصے میں کیوں آئے ؟مجھے اِنسا ن بنایا دِل دیا، دِماغ دیا با طنی آنکھ کا عذا ب بھی کھول دیاتو میری رضاکو کیوں مجھ جیسے کمیوں کجیوں والے مرد کے تابع کردیا؟
تیری توجنت بھی رَب کریم مجھے تیرے کر م کا نہیں ستم کا اظہار لگتی ہے ۔ اَے رَب رحیم یہ تیری جنت ہے یا پھر خود ستا ئشی کے زعم میں ما رے مرد کی اپنی تخلیق کردہ ہے؟ میرے رب وہ حشر کی گھڑی جب اعمال تو لے جا ئیں گے جب جزا و سزا کا وقت آئے گا تو میں جو تمام عمر میدا نِ حشر میں ہی کھڑی رہی کیا دو با رہ تو لی جا ؤں گی ؟ تو لی جا ؤں گی تو کیا مےھز وہاں بھی میرے حسبِ آرزو نہ ملے گا ۔ وہاں بھی مجھے وہ دیا جا ئے گا جو مرد کی آرزو ہو گی وہ سوا ل جو بندوں سے کر کے میں کفر کی مر تکب ٹھہری مگر اے عا دل عدل تیری صفت ہے ۔ اک جنتی عو رت کا مرد اگر جہنمی ہو تو تیرا عدل اس کا کیا فیصلہ کر ے گا؟ اگر ایک عورت دو یا تین مردوں کے نِکا ح میں رہ چکی ہو تو پھر تُو روزِ حشر اُس کا ما لک کس کو ٹھہرا ئے گا ؟
میرے ما لک جب تُو مجھ سے را ضی ہو گیا تو کیا مجھے بھی حسبِ آرزو و رضا مِل سکے گا ؟ تو پھراے رحیم تو رحم کر اِ ن سوا لوں کے بیجوں کو مرد کے دِل کی مٹی میں بو دے !
(تیری اِک عا جزو گنہگار رستم رسیدہ بندی)
ایڈیٹر نے خط ختم کیا تو اس کی آنکھیں جانے کیوں کچھ بھیگی بھیگی تھیں اس نے سگریٹ کا لمبا کش لیکر کھڑکی کو کھو ل دیا ۔ آسما ن پر بادل تھے ۔ اُسے لگا یہ سوا ل اپنی طا قتِ پرواز سے اُڑ کر با دلوں میں جا ملے ہیں ۔ ابرِ رحمت برسے گا تو منتخب دِلوں کی مٹی میں یہ جذ ب ہو جا ئیں گے ۔ ان بیجوں سے کو نپلیں پھوٹ نکلیں گی ۔