مردہ آنکھوں کا شہر

یہ اک مردہ آنکھ تھی جو کسی ان دیکھے چھرے کی زد میں ٓائی تھی ،اندھا دھند فائرنگ مں کس چھرے پہ کسں کا نا م لکھا تھا ،پتہ بھی تو نہ چلتا تھا ۔اورپھر یہ ٓانکھ تو فقط آٹھ برس کی تھی !آٹھ برس کی معصوم حیرت زدہ آنکھ!
مردہ ہوجانے کے باوجوداس آنکھ میں حیرت کھدی تھی کہ آخر مجھے کس جرم کی سزا ملی ،آزادی ،حریت پسندی ،جہاد،پاکستان،ہندستان....مجھے بھلا ان سب سے کیالینا دینا۔
مجھے تو ابھی اپنے حصے کے رنگ ،زعفرانوں کے کھیت ،ڈل جھیل میں بہتا اپنا عکس دیکھنا تھا ،ان آنکھوں نے اس کے سوا تو اور کوئی جرم بھی نہیں کیا تھا!
پرندے شکار کرتے کرتے یہ پیلٹ گنز جانے کس موڈمیں اپنا رخ بدل بیٹھیں ،شکاری نے شاید پینترا بدلاتھا،پرندوں کی بجائے ریا ست کا مستقبل شکار کرنا شروع کردیا تھا !
شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتا ل کے آپریٹنگ روم میں آپریشن ٹیبل پہ پڑی یہ مردہ آنکھ آٹھ سالہ راحیل کی تھی!
راحیل جو اپنے سکول سے واپس آرہا تھا !اس روز آپو جی کے منع کرنے با وجود جانے کیوں وہ سکول جانے کی ضِدکر بیٹھا !حالا نکہ کرفیو،آئے روز ہڑتالوں،سکول کی نبدشِ ،اِن سب چیزوں نے بڑوں کی طرح بچوں کو بھی اِک تساہل اور جمود کا شکار کردیا تھا ۔ سکول سے چھٹی ہونا بچوں کو غنیمت لگا کرتا!
مگر اس دِن راحیل کوسکول جانے کی ضِد جانے کیو ں تھی ۔۔شاید اس کے دوست نے اس سے کچھ وعدے لے رکھے تھے،ہاں محمد حسین کو اْس نے بدلے میں کچھ کھلونے اور ر نگین تصویروں والی کتاب
دینی تھی،اسی محمد حسین کو جِس نے اْسے ایک قیمتی طوطا تحفے میں دیا تھا۔اور جس کو پہلے روز اس کے گھر میں
دیکھ کر وہ فرط اشتیاق سے چلایا تھا’’شوگا‘‘اتنا سوہنا شوگا۔۔۔
اور محمد حسین جو اس طوطے کے نخروں اور اداسی سے بیزار تھا کہ یہ باؤ جی کے ایک دوست جو چندی گڑھ سے ملنے آئے تھے،تحفے میں دے گئے تھے۔مگر طوطے کا شاید جی نہیں لگا تھا اِس اجنبی سرزمین میں ۔۔۔
یا شاید قید میں !
سو محمد حسین نے کچھ کھلونوں اور رنگین تصویروں والی کتاب ،جس پہ اس کی کب کی نظرتھی،کے بدلے یہ قیمتی پرندہ راحیل کو دیا!
شاید کچھ اِسی طرح کا سستا اور بھیانک سودا اِس بد قسمت ریاست کا انگریزوں اور مہاراجہ گلاب سنگھ کے درمیان بھی ہْوا ہو!اِس بیش بہا،قیمتی انمول ،انوکھی،حسین و جنت نظیر وادی نے اپنی اِس کم مائیگی پہ کتنا ماتم کیا ہوگا ،جب اِسے فقط پچھتر لاکھ نانک شاہی میں فروخت کرکے ظلم و جبر کا ایک نیا باب کھول دیا تھا!
ویسی ہی ارزانی جو یوسف نے بازار مِصر میں محسوس کی تھی !
اِس معصوم سے سودے کی قیمت راحیل نے جو بَس آٹھ برس کا تھا،کچھ یوں ادا کی کہ آپریشن ٹیبل پہ وہ اِک مْردہ آنکھ بنابے سدھ لیٹاتھا!
پیلٹ گن کی زد میں آئی یہ زندہ آنکھ اب محض اِک سیاہ پتلی سیال لکیر میں بدل گئی تھی! اورآنکھ کا پردہ ،پتلی اور بصری اعصاب ہمیشہ کے لیے مْردہ ہو گئے!شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال کے آپریٹینگ روم میں ڈاکٹر نرنحبن نے کِتنے راحیلوں کے کیسزروز نبٹاتے ہیں۔۔
کتنے بچے ،کتنی عورتیں،کتنے جوان چہرے اندھی آنکھیں لے کر آتے ہیں اورروزانہ کے بیسیوں مریض سرکاری ہسپتالوں میں مْردہ آنکھیں جمع کروانے آتے ہیں!
جانے اِس مردہ خانے کا گوشوارہ کون جی دار مرتب کرتا ہوگا؟!!!
ڈاکٹر نرنحبن نے آپریشن شروع کیا،دھاتی پٹی سے جبراَ آنکھ کھول کر ڈھیلا باہر نِکال لیا گیا،ڈاکٹر کا نشتر آنکھ میں ایسے اْترا جیسے چاقو کِسی خربوزے میں اْتر جاتا ہے!
ڈھیلے پہ چرکے لگتے ہیں اور خون کی باریک لکیریں بہہ نکلتی ہیں۔آج جانے کیوں سَرجن کے ماتھے پہ پسینہ اور لَب پہ بْڑابْڑا ہٹیں ہیں۔
یوں لگتا ہے اِس مْردہ آنکھ کے پیچھے کوئی منجمند حیرت سرجن کو گلے مِلنے چلی آئی ہے یا کوئی بھیانک تصویر نظر آگئی ہے!
اس مردہ آنکھ کے ڈھیلے میں راحیل کے اپاہج باپ کی تصویر بھی نظر آتی تھی۔۔۔
تب بھی شاید کوئی برہان وانی جیسا تھا، ہْوا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔برہانی وانی کِسی شخص کانام تھوڑی تھا!
یہ تو ریاست پہ جبر کے خِلاف آواز کا اک استعارہ تھا!
ایسے ’’برہان وانی‘‘ کشمیر کی وادی میں جانے کب سے شہید ہوتے آتے ہیں!
ایک طرف والے انکو شہید کہتے ہیں۔۔
اک طرف والے ان کو غنڈے ،موالی اور ’’آتنگ وادی ‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں !
اور ان دو ریاستوں کے بیچ میں خون نا حق،مقدس خون بس دریائے نیلم کو سرخ کررہا ہے جو اپنی شان بے نیازی سے اِدھر سے ادھر بہتا جاتاہے!
یہ سادہ سے محبت کرنے والے ،محبت و مہمان نواز لوگ جانے کس جرم کی پاداش میں اِقتدار کی دیوی کے چرنوں میں بغیر کسی رسم قربانی کے ، بغیر کسی حساب کتاب ،بغیر کسی حکم کے لہو کی بھینٹ چڑھاتے جارہے ہیں اور فیصلہ ہے کہ ہو ہی نہیں پاتا!
اِس مسلم بد قسمت ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ نے دو ریاستوں کے قیام کے وقت جو آگ لگائی تھی وہ سرحدوں کی خلیج بن چکی ہے ریاست کوٹکڑوں میں بانٹ چکی !
اور جب یہ ٹکڑے کیے جارہے تھے تو اِس بد قسمت قوم نے جَموں کے مشرقی ضلعوں میں پھوٹنے والے فسادات میں برٹش اَبزرور کمیشن انڈوپاکستان کے مطابق ستر ہزار جانوں کی بلی چڑھائی تھی جبکہ آزاد کشمیر حکو مت دعوی کرتی تھی کہ دو لاکھ مسلمان مارے گئے!
اور مسلمان ہر جگہ اپنے گھروں میں ، آتشدانوں کے آگے سرگو شیاں کرتے، چائے خانوں میں چائے خانوں میں چائے کیساتھ کھولتے ہوئے برملد کہتے کہ یہ قتل مہا راجہ کے حکم پہ ہوا تھا کہ مہا راجہ ہندوستان کی گود میں بیٹھنے کا آرزو مند تھا اور اس لئے رام چند وزیر اعظم خود مختاری کے لغرہ مستانہ کے جرم میں معطل کردیا گیا تھا...
اور انہی لوگوں نے اِک ٹکڑا آزاد کر کے آزاد کا نام بلند کیا تھا!
یہ قتل و غارت کا بازار تب سے گرم نہیں،دہک رہا تھا !
یہ مجبور و مظلوم قوم جبر کے سائے میں مفلوج کر کے رکھ دی گئی تھی،بھلا کب ظلم کے خلاف آواز اٹھا پاتی تھی !
ڈوگرا راج کے ظلم کا طبل روز بجتا تھا ! ظلم ،بھاری ٹیکسز جہالت نے کبھی آواز اٹھا نے کی جرات ہی نہ دی تھی ،۱۹۲۴ء میں اِس ظلم واندھیر نگری کے خلاف جو آواز ریشم کے مہین کارخانوں سے اٹھی تو وہیں مہارت سے دبا دی گئی ۔۔۔
اس لئے تو جناح جانتا تھا کہ مفلوج کشمیری مسلم اِ ک جا بر فوج اور شیخ عبدالللہ کی قوت میں کبھی بھی اپنے ووٹ کا حق اِستعمال نہیں کر پائے گا ۔۔۔اورتب اِقوام متحدہ نے اِس بد قسمت قوم کے لئے حق خود ارادیت منظور کیا اور فوج کو کم کر نے کی ہدا یت بھی!
مگر تب سے آگ بجھتی ہی نہیں!
دونوں ریا ستیں بساط بچھائے پٹے مہرے چلتی ہیں !
اِن ریاستوں کی چالوں میں مات کشمیر کے حصے آتی ہے!
کوئی نہیں سننا چاہتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں !
اور اِس کے نیچے میں ’’برہان وانی‘‘ ہر عہد میں جنم لیتے ہیں اور’’ شہید‘‘ اور ’’آتنگ وادی‘‘ کا خطا ب حاصل کر کے جا ن نثا ر کر کے چلے جا تے ہیں!
اور جب را حیل کے باپ کو اپنی ٹانگ سے محروم ہونا پڑا ،تب بھی کوئی ’’برہان وانی ‘‘ریاستی تشدد و دہشت گردی کی نذر چڑھا تھا!
جبکہ۹۰ ۱۹ء میں پاس ہونے والے جموں کشمیر آرمڈ فورسز سپیشل آرڈیننس نے حکو متی جن کو لا متنا ہی قوتیں عطا کر دی تھیں ، اُسکے دسیوں نئے ہاتھ اُگ آئے تھے جنہوں نے فوج ،پولیس،پارلیمنٹ کو کشمیری خون کو چاٹنے کی لمبی زبان عطا کی تھی اور یہ زبا نُ سڑک سُڑک لہو پی رہی تھی۔۔۔
راحیل کا باپ بھی کیاکرتا ؟کرفیو اِتنا لمبا ہوجاتا کہ زندگی کا جمود زندگی کو موت سے بدتر کردیتا ! عیدیں شب براتیں،شادیاں،خوشیاں،غم ،حتی کہ جنازے بھی کرفیو نگل جاتا۔۔تو وہ کیا کرتا پھر۔۔وہ نکِلا تو کام سے ہی تھا !
اِن حبَس بھرے،کرفیو کھائے دِنوں میں راحیل کی آپوجی نے راحیل کے سب سے بڑے بھائی کی شادی کردینے کا فیصلہ کیا تھا، آج اِسی سلِسلے میں گھر میں ایک دعوت کا اہتمام تھا،سب رشتے دار قریب قریب تھے اور کرفیو کے مختصر وقفے میں راحیل کے گھر جمع ہوگئے تھے!
مہمانوں کی تواضع نون چائے سے ہوچکی تھی اور آپو جی گشتابہ اوروازواہ کھانے میں تیار کر رہی تھیں....کہنے کو تو عجیب لگتا تھا کہ کرفیو،حبس،گھٹن ،لاشوں کے موسم میں ایسی تقریب ہو... مگر اب اِس قوم نے اِن موسموں میں جِینا سیکھ لیا تھا!
وہ اِن موسموں میں زندگی جِینے کا سامان کرنا سیکھ گئے تھے !
اور تب ہی راحیل کا باپ منع کرنے کے باوجود اپنے بھائی کی خبر لینے کر فیو کے باوجود نِکل،ا راحیل کا چچا ابھی تک پہنچا نہیں تھا جِس پہ سب کو تشویش تھی کیونکہ اُسکے محلے میں شورش کی خبریں زیادہ تھیں!
وہ جب باہر نِکلا تو اُس نے سامنے پنڈتوں کے محلے میں نندتا پنڈت کے ویران تاریک گھر کی جانب نِگاہ کی،اِس نگاہ میں حسرت و غم تھا!اِک آہ تھی!یہ زمین اَب بے رنگ موسموں کی زد میں تھی،یہاں ایک رنگ ،ایک مذہب کی شدت وباکی طرح پھوٹ پڑی تھی۔کشمیری پنڈتوں کواپنا آبائی وطن چھوڑ کر دِلی ،جموں اور مشرقی پنجاب کی جانب ہِجرت کرنی پڑی تھی!
اور راحیل کا باپ شبیرعلی جوکبھی نندتا پنڈت کا صِرف شبی ہْوا کرتا تھا۔۔۔وہ دونوں بچپن کے ساتھی تھے۔۔۔مزاجوں میں مذہب کی تفاوت کے باوجود حیرت انگیز ہم آہنگی تھی!
دونوں نے لل عارفہ اور حبہ خاتون کو میر حسن صاحب سے پڑ ھاتھا،لل عرفہ اور حبہ خاتون کا کلام دونوں کا عشق تھا!یہ اِک اور اِشتراک تھا دونوں کے درمیاں۔لل عارفہ جو مسلمانوں میں لل عارفہ ،کاملہ کہلاتی اور ہندووں میں لل ایشوری۔۔۔۔۔۔!
اس کے واکھ پڑھتے ہوئے دونوں وجد میں آجاتے!
مگر پھر مذہب کی دیوار بیچ میں آکھڑی ہوئی،دونوں جانتے تھے ریاست کے حالات میں یہ کسی بہت بڑے فساد کا باعث بن سکتا تھا۔۔۔اِک دوسرے سے کچھ بھی نہ کہا دونوں نے اور خاموشی سے دوونوں اپنے اپنے جیون کی راہ پہ چل پڑے!اور آج وہ سْنتا تھا کہ اْسکی بچپن کی ساتھی نندتا پنڈت اپنا حویلیوں جیسا گھر چھوڑ کر اپنے بال بچوں سمیت کسی کیمپ میں بَد حالی و عسرت کی وہ عبرت انگیز مثا ل بنی زندگی گزار رہی تھی جو جانوروں سے بھی بد تر تھی! وہ کیمپ کسی مْردے کی قبر کی طرح تنگ تھے!
وہ خاموشی سے سر نہیواڑے سْرمئی پھیرن پہنے اور اْونی ٹوپی میں دْبکا وہاں سے گزر گیا!
گوگہ پھیرن بھی ’’جہادی‘‘ اور ’’مْسلم‘‘ کالقب پا کر وادی میں ممنوعہ حدود میں چلاگیا تھا مگر پْرانے لوگوں کے لیے اِسے ترک کرنا اْنکے بَس کی بات نہیں تھی۔ خاص طور پہ باہر نکلتے یہ پشمینیہ اْون کے بنے گرم اْونی پھیرن،وادی میں پڑنے والی ہڈیوں کے گودے جماتی سردی کا مقابلہ ،یہ پھیرن ہی کرتے تھے!
کرفیو تھا،مگر کرفیو کے نرم ،گرم لمحے دونوں چلتے تھے! روز ڈیوٹی پہ آنے والے لوگ بھی اہل محلہ کو جاننے لگ جاتے تھے!
سو وہ محتاط ہو کر نِکل پڑا تھا! اِک اِطمینان یہ بھی تھا کر سب سے پہلا سامنا سپاہی رام داس سے ہوگا اور پھر آگے معاملہ آسان ہوجائے گا ،وہ گلیوں ہی گلیوں میں بچتا اپنے بھائی شاہ میر علی کے گھر پْہنچ جائے گا ۔۔۔مگر جانے اْسے روز رام داس کی جگہہ کوئی اجنبی کھڑا تھا۔۔۔اور اچانک کسی جانب سے کوئی پتھر گرا تھا۔۔۔۔۔۔وہ سپاہی اِتنا خوفزدہ ہْوا کہ اْسکی بندوق نے اندھی گولیاں پھینکنی شروع کردیں۔۔۔بندوقیں تو ہمیشہ سے اندھی ہی ہوتی ہیں۔۔۔ نشانے ہی باندھ کر لیے جاتے ہیں !!!!
ایسی ہی کو ئی اندھی گولی شبیر علی کی ٹانگ چاٹ گئی!!!
اور پھر چراغ بجھ گئے.....اندھیرا چھاگیا...!
ڈاکٹر نے آپریشن ٹیبل پہ پڑی مُردہ آنکھ سے اِک لنگڑی ٹانگ برآمد کی تو جانے کیا نظر آیا کہ وہ لرزاُٹھا!
اسکی بڑُبُڑاہٹ کبھی بلند ہوجاتی اور کبھی آہستہ !
وہ ماتھے سے پسینہ پوچھتا پھر اپنے کام میں مصروف ہوگیا...یہ آنکھ جا نے کتنی گہری تھی ...اِس کھدای میں کیاکیا برآمد ہونا تھا؟!
شبیر احمد کے اپاہج ہونے کا شاہ میر پہ بہت بُرا ثر پڑا...اُسکا اکلوتا بڑا بھائی جو باپ کی جگہ تھا،معذور ہوگیاتھا!
وہ اپنے کاروبار کے تباہ ہوجانے پہ یوں بھی بہت زور رنج اور چڑچڑ ا ہورہاتھا...
ایک وقت تھا کہ اُسکی شکار ا اور ہاؤس بوٹ کا سیزن فُل جایاکرتا تھا،،ہنی مون منانے نئے نویلے جوڑوں کا اپنا موسم ہوتا تھا،جو برفوں میں قربتوں کی گرمیاں ڈوھونڈنے اِن جمی جھیلوں میں ہاؤس بوٹ بُک کروالیتے!
سیاحت کو دُنیا جہاں سے آئے سیاح بھی ہاؤس بوٹ اور شکار ا میں سیر کے انوکھے تجربے کو ضرور آزماتے ۔وولرجھیل اور ڈل جھیل کے شکارا اور ہاؤس بوٹ حُسن کااِک اِستعارا تھے !
گو کہ کشمیر تو سارا جھیلوں ،آبشاروں ،کہساروں کا جنت نظیر وطن....سرحد پارکی بن جھونسہ ،زلزال،دیوسائی جھیلیں بھی مشہور تھیں ...مگر شکار ا اور ہاؤس بوٹ توادھر ہی چلتے تھے۔۔ ادھر کی جھیلیں چھوٹی تھیں اور سیاحت سیاست وحکومتی بے حسی کا شکارتھی ۔۔۔
اور شاہ میراپنے علاقے کا متمول آدمی تھا۔۔وہ اپنہ ہاوس بوٹ پہ نازاں تھا...وہ اُسکا عاشق تھا...اُسکے شب و روز کا وقت اُدھر ہی گزر تا تھا...خالی دِنوں میں بیوی بچے بھی آجاتے ...وہ اور اسکے دوسرے ملاح دوست کافی سریلے تھے!
وہ جب فارغ ہوتے تو حَبہ خاتون کے لوک گیت کی تانیں چھیڑ دیتے!
(وار وین ست وارچھس نو
چارہ کر میوں مالینو ہو!! )
سسرال والوں کے ساتھ میں ٹھیک نہیں ہْو ں کچھ میرا خیال کرو میکے والو۔۔۔۔۔۔ہواِن لوک گیتوں میں کشمیر کے کہساروں،جھیلوں ،پامپور کے زعفرا نوں کے کھیتوں کی مہک ہوتی !!!آنے والے پردیسیوں کا ذکر ہوتا!!! اِک عجیب درد اور اْداسی ہوتی جو دِل کو کھینچتی تھی!!
اور جو شکار ا خالی بھی ہوتے ان اداس تانوں کے مقناطیس ان کو کھینچ لیتے اور وہ بھی بھر جاتے !!
شکارااور بوٹ ہاؤس میں چلنے والے ٹیپ ریکارڈ ر پہپاکستانی اور انڈین اردوگانے شوق سے سنے جاتے!!
سیف الملوک پڑھی جاتی تو جھیلیں و کہسار بھی وجد میں آجاتے!
پوٹھو ہاری وپنجابی گانے بھی شوق سے سْنے جاتے!
مگر پھِر اِس شوق و وارفتگی کو آگ لگ گئی۔۔۔۔۔۔چناروں میں اِک بار پھر آگ بھڑک اْٹھی!
شبیر علی کی ٹانگ کو ایک اندھی گو لی چاٹ گئی اْس وقت جب آپو جی پاؤں میں چاولوں کی گھاس سے بنے پول پہنے،اِسی گھاس سے بْنے کھیڑے پہ بیٹھی وازوان بنا رہی تھیں اور سما وار میں کچھ کو یْلے مزید ڈال کر نون چائے سے اْسے بھرا تھا!
یہ خبر سْن کروہ بمشکل اْٹھیں اور ڈیوڑھی تک آتے آتے گر گئیں جہاں شبیر احمد جاتے ہْوئے کانگڑی رکھ گیا تھا جِس سے اِک ہلکی خوشگوارسی حدت ڈیوڑھی میں پھیلی تھی!
اور شاہ میر جسکا ہاؤس بوٹ کا کاروبار شورش نِگل چکی تھی،جھیلیں ویران،اْداس لیٹی رہتی تھیں۔۔۔کائی اور کوڑے کے ڈھیر لگ جاتے !
مین بولیوارڈ پہ فوج کا زبردست ناکہ تھا،لمبے رستے سے گھوم کر آنا پڑتا!
اْسکا اِک سائیڈ بزنس کا نگڑی کو ٹھیکے پہ تیار کر وانا بھی تھا،اِس مٹی کے پیالے کے گرد بڑی خوبصورت تیلویوں کی،رنگ برنگ تیلیوں کی بنت کی جاتی تھی۔۔۔۔۔۔ہْنر مند اْنگلیاں رنگوں کے اِمتزاج سے برفوں میں دہکتی اِس انگیھٹی کو سچ مچ گل و گلنار کر دیتیں۔۔۔دیکھنے والی آنکھ حیرت زدہ ہوتی کہ یہ اِتنے رنگ کہاں سے اْگ آتے ہیں مگر وادی کی مٹی بڑی زر خیز تھی ،ہر پندرہ بیس میل بعد بلا مبا لغہ رنگ بدلتی تھی۔۔۔۔۔۔ اور یہ رنگا رنگی اِس ریاست میں بسنے والی قوموں میں بھی تھی،لدا خ و جموں کا اپنا رنگ اور پونچھ و سرنیگر پہلا گام کے اپنے رنگ تھے!
یہی رنگ کشمیر آرٹ ،ادب کلچر اور ثقافت میں نظرآتے ہیں!
پانچسوسال کی غلامی نے وہ سب نہ نِگلاتھا جو اَب کہ دِلی سرکار نے لُوٹ لیا!......لوٹاکبھی جبرسے ....اورکبھی دعوت کے دسترخوان پہ...حبہ خاتون ....دختر کشمیر کے حُسن کو جَب تخت دِلی نے سولویں صدی میں للچائی نظروں سے دیکھاتھا....اور دوبارشکست کھانے کے بعد اُسکے بادشاہ ...اس کے شہزادے کو دعوت کے بہانے بُلا کر اس سے جدا کردیاتھا...پھر حبہ نے ہجر کے...محبت کے گیت لکھے ....حبہ اور یوسف چک دونوں اسیری میں جُداجُدامرگئے...مگروہ گیت آج بھی زندہ ہیں !
اور کشمیر ....اور دُختر کشمیر آج بھی ہجر کے ،جدائی کے ،اپنی رسوائی کے....اپنی اندھی کردی جانے والی آنکھوں کے گیت گارہی ہے...مگر اسیری وقید کا پھنداہے کہ تنگ ہوتا چلا جاتاہے!
تو شاہ میر جو گانگڑی ٹھیکے پہ تیار کرواتا تھا اورچلے کلاں میں ،جو شدید برفوں کا ظالم موسم تھا....کانگڑی خوب بِک جاتی...مگر وائے قسمت کہ کانگڑی اور پھیرن دونوں ’’مسلمان‘‘کردئیے گئے ،شہروں میں ہیٹ سٹم آگئے اور کانگڑی اور پھیرن ...جہادی و دہشت گردی کی علامت بن گئے کہ کئی بار ہوافوج کے ڈنڈے کھاتے مشتعل ہجوم نے آگ سے بھری کانگڑی اُلٹ دی...بے ضرر،حدت پہنچاتی کانگڑی ...آتش و بارود سے بھرا بم بن گئی...
شاہ میر سے اُسکایہ روزگار بھی چھن گیابڑابھائی معذور ہوگیا....اور پھر شاہ میر کبھی واپس نہیںآیا...وہ اوپر پہاڑوں میں پرچلاگیا!مزاحمت کاروں میں جامِلا!
اسی،نوے کی دہائی تک وادی میںیہ ایک مذاق تھا...امن وآشتی ،محبت کی،معرفت کی باتیں کرنے والے ...جب کسی جنگجو کی خبر سنتے جس نے ظلم کے خلاف بندوق اُٹھالی تھی تو اُسکی بہادری کا تذکرہ عقید ت و محبت سے کرتے!
مگر جب شاہ میر نے بندوق اُٹھائی تب تو یہ ایک عام سی خبر ہوچکی تھی....
فوج کے قبضے نے پوری وادی کو جیل میں بدل دیا تھا اور نفرت ولا تعلقی جنم لے چکی تھی....
اِس نفرت ولا تعلقی کے بطن سے مزاحمت پھوٹی تھی.....
عبدالاحدآزاد اور محجورکی شاعری سے محبت کرنے والے ،سننے والے کان اب لاشوں ،بارود ، گولیاں اور ماورائے عدالت قتل کی خبریں سننے کے عادی ہوگئے تھے!
یہ مزاحمت تو ادب میں بھی دراندازی کر چکی تھی مگر سرکار کی رٹ ایک ہی تھی کہ درانداز’’باہر‘‘سے آرہے ہیں!
شاہ میر پھر کبھی واپس نہیں آیابلکہ اُسکی پیروی میں اُسکا وہ بھتیجا بھی چلاگیاجسکی دعوت میں شاہ میر کو بلانے کی قیمت میں شبیرعلی نے ٹانگ گنوادی تھی!
راحیل کی مُر دہ آنکھ میں شبیر علی کی ٹانگ کے پیچھے ....اور دو لاشیں بچھی تھیں ،شاہ میر اُسکے چچا اور بھائی کی لاشیں .....اِک مردہ آنکھ سے یہ سب برآمد کرتے کرتے ڈاکٹر نرنجن ہانپ کر رہ گیا!
ڈاکٹر نرنجن بُڑبُڑاتا چلاگیا
کتنی لاشیں....کتنی مردہ آنکھیں ....کتنے لاپتہ افراد...کتنے معذوراور.... کتناخون ابھی اور درکار ...ارے یہ لوگ ریاست ،حکومت ، فوج کے ہراِستعارے وعلامت سے نفرت کرتے ہیں....یہ تو اپنا فیصلہ باربار سُنا چکے ...ہر لاش،ہر زخمی ایک ہی کہانی کہتا نظر آتا ہے.... کشمیر ....پیروار....رشواو اریعنی صوفی سنتوں کی سرزمین ،پیروں فقیروں کا مسکن ،ہندوں استھانوں اور مسلم صوفیوں کا دیس ....کیا المیہ ہے کہ اِنسان دوستی و بھائی چارے کی وارث یہ قوم اب نعرے لگاتی ہے ’’جو کرے خدا کا خوف ، اُٹھالے کلا شنکوف (’’گر توے کر خدا ہن خوف ، وتھ تل کلا شنکوف‘‘)
یہ لوگ جاگ چکے ہیں ...اِنکو غربت ،جہالت ،پسماندگی دی گئی....
مگر پھر بھی آزادی کی شمع اِن کے دِلوں میں روشن ....مفتی سعید پہلا مسلم ہوم منسٹر تھا... مگر تب بھی یہ لوگ اپنا فیصلہ رقم کر گئے تھے ....رباعئیہ سعید کی رہای وواپسی کی بجائے جشن اُن پانچ ساتھیوں کا منایا گیاتھا...یہ کتنا ہولناک پیغام تھاظلم کے ایوانوں کے لیے ....مگر جواب اندھی طاقت وگولی سے آیا...نتیجہ تقریباََڈیڑھ لاکھ ہلاکتیں ....ہزاروں مجروح ونا کارہ ،ٹوٹے پھوٹے لوگ ...اور لاپتہ کتنے ہیں ....پتہ نہیں ....‘‘
یہ کہکر ڈاکٹر نرنجن نے اِک بار پھرنشتر راحیل کی مردہ آنکھ میں اُتاردیا......دور کہیں راحیل کا’’شوگا‘‘اپنے آرام دہ پنجرے میں بہت بے آرام وبے چین تھا.....
آزادی پر پھڑپھڑارہی تھی ...
اِس مُردہ آنکھ میں بہت سے۔۔۔ ماضی کے لمحے زندہ برآمد ہورہے تھے....
اُس حیرت انگیز مُردہ آنکھ نے وہ منظر بھی اُگل دیے تھے جواُسکی پیدائش سے پہلے نظارہ بن چکے تھے!
یہ مُردہ آنکھ کوئی چشم حیراں و دیدہ عبرت تھی!
ابھی راحیل کی اِس آنکھ کو اِس دُنیامیں کھلنے میں تین برس رہتے تھے!
تین برس بعد جِس آنکھ نے جنم لینا تھا اُسکے آنسو بہت پہلے سے اکھٹے کیے جاچکے تھے،بہت سی صبحیں اور شامیں اُسکے آنسو جمع کررہی تھیں........وہ صبح بھی اُن صبحوں میں سے ایک تھی راحیل کا بڑابھائی اسد علی جو محض ابھی سولہ برس کا تھا....کچھ روز قبل اپنے خالہ ذاداور چچا ذاد کیساتھ سرحد پار آزاد کشمیر میں بسنے والی اپنی پھپھیو سے ملنے گیا تھا....
سرحد نے خون کے رشتے تقسیم کر دیے تھے.....ایک زمیں .....ایک ریاست ٹکڑوں میں بٹی کئے المیوں کو جنم دے رہی تھی.....
سیاستوں کی بساط پہ مات عوام کھارہی تھی.....
یہ اجازت بہت مشکل سے حاصل کی گئی تھی....گو کہ کمپیوٹر ایج نے فاصلوں کی سردی کو کم تو کیا تھا....اپنے پیاروں سے رابطے آساں ہوگیے تھے....مگر قربتیں حسی شہادت طلب کرتی ہیں!
تو اِ س ملاقات کے لیئے بہت دقتوں سے کراسنگ پواینٹ پرمٹ حاصل کیا گیاتھا....اِس اِجازت نامے کو سہل بنانے کواِسے نجی نوعیت کے علاوہ تعلیمی افادیت بھی دی گئی تھی....بچے نیلم وادی میں بسنے والی اپنی پھپھیوں کے ساتھ ساتھ شادرہ نیلم کی قدیم ترین یونیورسٹی کے کھنڈررات بھی دیکھنا چاہتے تھے جہاں چین،منگو لیا اور ویت نام تک سے لوگ حصول علم کو آتے تھے.....اُن بچوں کے اِشتیاق کو مہمیزملتی تھی کہ وہ تو بچپن سے سنتے آئے تھے کہ علم حاصل کرو چاہے چین ہی جانا پڑے .....اور وہ یہ سن کر حیران ہو جاتے تھے کہ اُنکی اِ س وادی میں اِک یونیورسٹی ہوا کرتی تھی جہاں لوگ چین تک سے آتے تھے!!!
اسد علی اس صبح اپنے گھر سے دور ....سرحد پار اپنی پھپھیوں کے گھر سکون سے سوتا تھاجب زلزلے نے پوری وادی کو بری طرح جھنجھوڑڈالا....
اِس زلزلے میں ملبے تلے تین دِن بعد اسد علی کی لا ش مِلی تھی.... اور سری نگر کے بَس اڈے پہ راحیل کا باپ ...جانے کتنے باپ...کتنی بہنیں ....کتنے بھائی ....کسی کا چچا ....کِسی کا ماموں ....سرٹپک ٹپک کر روتا تھا..... مگر کوئی بَس نہ رستہ دیتی تھی نہ اپنوں کو ملاتی تھی.....
ڈاکٹر نرنجن راحیل کی مُردہ آنکھ سے اسد علی کی لاش نِکال کر تھک کر چور ہو چکا تھا....
یہ لاش بہت بھاری تھی ،سب سے بھاری....کمر توڑ گئی تھی ....
ڈاکٹر نرنجن بڑبڑایا’’یہ کیسے لوگ ہیں...اِتنی لاشوں کو ڈھونے کے بعد زندگی کی شاخ کیسے ہری رکھ لیتے ہیں ....پھر زندگی کو جنم کیسے دے لیتے ہیں‘‘
مگر ڈاکٹر نہیں جانتا تھا کہ بقا کا احساس کِتنا ظالم ہوتا ہے دو بیٹوں کو کھو دینے کے بعد اپنی نسل معدوم ہونے کا خوف.... معذوری اور ادھیڑ عمری کو قوت دے گیاتھا....اور یہی راحیل کی پیدایش کاپیش خیمہ بھی بنا .....
اور وہی راحیل ....فقط آٹھ برس کا راحیل ....اِک مردہ آنکھ لیے آپریشن ٹیبل پہ بے سدھ لیٹا تھا!
ڈاکٹر نے آخری بار اُس مُردہ آنکھ میں جھانکا .....اُس مُردہ آنکھ میںآزادی کا خواب پُوری قوت سے جا گ رہا تھاجِسے نوچنا ممکن نہیں تھا....
مردہ آنکھ کے شہر کے گوشوارے میں درج ہے کہ اِن میں آزادی کے خواب ہمیشہ زندہ تابندہ رہیں گے!۔