شجر ممنو عہ کے تین پتے

’’اور کیایہ ابنِ آدم کے شجرِ ممنو عہ سے کھا ئے یا پھر کھلا ئے اس دا نۂ گندم کا اثرِ خما ر ہے کہ اور یہ خما ر روح کو چڑھا یاپھر بدن کو ‘‘
ابھی میں نے چند لا ئنیں ہی گھسیٹیں تھیں کہ ملا زمہ نے اِ طلاع دی :’’ با جی! پڑوس سے رفعت با جی آئی ہیں ، بلا رہی ہیں ۔ کہہ رہی ہیں کہ،’’با جی سے کہو جلدی سے آجا ئیں اگر عیا دت کو جا نا ہے ‘‘ دراصل میرا اور رفعت کا پرو گرا م تھا کہ سا منے بی اماں جو کا فی دِن سے بیمار ہیں ۔ چَل کر اُن کی عیا دت کر لی جا ئے اور ایک اکیلے سے دو بھلے ! خاص طو ر پر جب مریض ’’ پڑو سی مریض ‘‘ بی اماں جیسا دبنگ ہو تو
بی اما ں بھی اِک انو کھا اور عجیب کر دا ر ہیں اور اپنے خا ص ہو نے کا احساس اُن کو بخو بی ہے ۔
عمر یہی کو ئی پچا سی ، چھیا سی برس ، دھا ن پا ن سی سا دہ مگر انتہا ئی نفیس ستھرے لباس میں ملبو س ہلکا خم کمر میں مگر بہت چا ق و چو بند ، ز با ن و مزا ج دو نوں اِنتہا ئی کر خت اور تیکھے لہجہ میں کُوٹ کُوٹ کر حا کمیت بھر ی ہو ئی ۔ اپنی تیس چا لیس سا لہ سروس میں پندرہ بیس سا ل وہ گو رنمنٹ سکو ل میں ہیڈ مسٹریس رہیں ، جِس عمر میں انہوں نے گر یجو یشن کیا اس وقت غا لباً انڈو پا ک کی گنی چُنی خوا تین میں شا مل ہوں گی۔
اس عمر میں بھی اپنی سبزی خو د خر یدتی اور ہنڈیا علیحدہ بنا تی تھیں مگر بہو کو زچ کرنے کے اُن کے پا س اور بہت سے طریقے تھے ۔ یہی اُن کے خصائل و شما ئل تھے کہپڑوس میں تما م لو گ بشمو ل میرے اُن سے بچتے تھے ۔ مگر اَب پتہ چلا تھا کہ وہ کا فی روزسے علیل ہیں تو اخلا قیا ت کا تقا ضا تھا کہ اُن کی عیا دت کو جا یا جا ئے ۔
جب میں اور رفعت بی اماں کی عیا دت کو پہنچے تو گو کہ انہوں نے ہما ری آمد پر بہت خو شی کا اظہا ر کیا ۔ اپنے پا س بٹھا یا ۔ اِصرار سے چا ئے پلوا ئی اور پھر اپنے مخصوص کڑک لب ولہجے میں ہما ری آمد کا مقصد دریا فت کیا ۔ میں نے اور رفعت نے ایک دو سرے کی جانب دیکھا اور کھسیا نے سے لہجے میں کہا :’’ بس آپ کی خیریت دریا فت کر نے آئے تھے پتہ چلا تھا کہ آپ کی طبیعت کچھ نا ساز ہے ‘‘ بی اما ن نے گھور کرذکیہ اپنی بہو کی طرف دیکھا :’’ یقیناً یہ خبر اسی نے پہنچا ئی ہو گی کیوں ؟ یقیناً یہ خبر آپ نے ہی انہیں دی ‘‘ زکیہ کا خون خشک ہوگیا ۔ بی اما ں پھر گو یا ہو ئیں :’’جا ئیے چا ر بج رہے ہیں ہما رے عصرا نے کا وقت ہو گیا ہمارے لیے چا ئے لے آئیے ‘‘ بے اما ں نے زکیہ کے جا نے کے بعد کہا :’’ بوڑھی بھی تو بہت ہو گئی ہوں میں مگر اپنے کا موں اور با توں میں مدا خلت پسند نہیں مجھے ۔ میں اس عمر اور بیما ری میں بھی اپنے سب کام خو د کر تی ہوں ۔ بہر حا ل آپ لو گوں کی تیمار دا ری کا شکر یہ ‘‘ اور پھر اس دورا نیے میں مَیں نے دیکھا کہ اپنے دعوے کے بر عکس بی اما ں کی پو ری کو شش تھی کہ وہ زکیہ کو زِچ کر دیں ۔ زکیہ کے بیڈ رو م اوپری منزل میں تھے ۔ اس کا ایک پا ؤں اوپر اور ایک نیچے وہ بو کھلا ئی ہا نپتی کانپتی پھرتی تھی ۔ مہما نوں کی کو ئی خبر و ہو ش نہ تھا ۔ اسی دورا ن بی اماں کے پاس یکے بعد دیگرے نسبتاً دو غریب رشتہ دا ر خوا تین آئیں ۔ بی اماں کو جھو لی بھر بھر دُعا ئیں دیتی ۔بی اماں نے خا مو شی سے تکیے کے نیچے سے بٹو ہ نکا لا اور ہزا ر ہزا ر کے کئی نوٹ نِکا ل کر انہیں خا مو شی سے تھما دئیے ۔ اسی اثنأ میں انہوں نے چشمے کے پیچھے سے ہمیں اِستفہا میہ نظروں سے گھورا گو یا کہتی ہوں کہ تم لوگ اب تک دفع کیوں نہیں ہو ئے اور میں اور رفعت جومتجسس اور متحیر سے بیٹھے تھے ہڑ بڑا کر اُٹھے رفعت وہیں سے اپنے گھر کو مُڑ گئی اورمیں پھر اپنے مطا لعہ کی میز پراِ س ملا قات سے پہلے جو لکھ رہی تھی ۔ اُس مو ضوع کو اِ ک مہمیز سی ملی بلکہ میری سو چ کے رُخ کو اثبا ت کا پہلو مِل گیا ۔ میں نے قلم سنبھا لا اور لکھا :’’وہ خما ر جو روح کو چڑھا یا بد ن کو ، مگر یہ بدن ہی ہے ۔ جو اس دُنیا میں رُو ح کو غلیظ کرتا ہے آج اِک ایسی ہی نیک روح سے ملا قا ت ہو ئی جو بدن کی کثا فت سے میلی ہو چکی تھی اور ‘‘ میں لکھتے لکھتے رُک گئی اورسو چ میں گُم ۔ حلق خشک محسوس ہُوا تو میں نے بچوں کو آواز دی ، پانی کا گلا س دو دو تین آوا زیں دینے پر دو نوں بڑے بچے ٹس سے مَس نہ ہو ئے ۔ دِ ل پر ملال ساچھا گیاکہ میں نے دیکھا میرا ڈھا ئی سا لہ مُنا سا بیٹااپنے چھوٹے چھوٹے ہا تھوں میں اپنا بے بی کپ لیے میرے لیے پا نی لا رہا ہے ۔ آدھا نیچے گرا تا ۔ یہ منظر میری روح کو اندر تک سر شا ر کر گیا ۔ میں نے تحریر کو و ہیں چھوڑااوروہ سا را دن میں نے بغور اِ س ننھے معصو م فر شتے کا مطا لعہ شروع کر دیا۔
اور پھر میں نے دیکھا کہ مَیں نے کِسی بھی کا م کا قصد کیا یا کسی کو آوا ز دی میرا ننھا سا بیٹا لپک کر اپنی بسا ط بھر کو شش کر تا کہ وہ میری مدد کو آئے اور میری محبت و تو جہ کا سزا وا ر ٹھہرے ۔ کبھی کُرسی کے نیچے میری جو تی نکا ل کر مجھے متو جہ کر رہا ہے ’’ مما جو تالے لو ‘‘ کبھی کتاب پکڑا رہا ہے اور کبھی کچھ میں نے محبت بھری حیرت سے اُسے دیکھا اورسو چا:’’ یہ نیکی و محبت کا سبق کِس نے اِ سے سکھا یا ؟ اس کی سر شت نے ؟ یہ سر شت کِس نے تخلیق کی ؟ اِ س تخلیق میں میرا کتنا حصہ ہے ۔ یہ سرشت اس کی روح کا حصہ تھی یا یہ بدن تھا ؟ تو کیا خما ر دا نہ روح کو نہیں صرف بدن کو آلو دہ کرتا ہے ؟ تو کیا اِ س فرشتہ سی عمر میں بد ن روح کے تا بع ہو تا ہے ؟ کیا روح و بدن کی ز با ن میں ہم آہنگی ہو تی ہے ؟ کیا روح نیکی کا دوسرا نا م ہے ؟ نیکی اور بدی کا ئنا ت کے توا ز ن کو قا ئم رکھنے وا لی دو متضاد قو تیں اِ ک رحما ن کی نما ئندہ اور اِ ک شیطان کی نما ئندہ قوت ۔ کیا یہ رحما نی وشیطا نی قو تیں صرف بد ن کی مقیم ہیں ۔ کیا بد ن ہی انکی نما ئند گی کر تا ہے؟ پھر اس را ہ میں رو ح کا کیا مقام ہے؟روح جو امر ہے رو ح جوا بد ی اور امر ی حقیقت ہے ؟
میں نے اُلجھ کر قلم رکھ دیا ۔ مجھے لگا کہ با ت کچھ اُلجھ گئی ہے میں مز ید کچھ نہیں لکھ پاؤں گی۔ جب تک حقیقت کو سمجھ نہ سکوں ۔ کچھ دن یو نہی بیت گئے بے کیف سے ۔ تخلیق رستہ ما نگتی ہے ۔ ما نگتی بھی کیا ہے ؟ خو د بنا لیتی ہے اور میں اِسی انتظا ر میں تھی کہ یہ اُلجھن اپنا رستہ خو دمتعین کر ے گی ۔ قوتِ تخلیق اِ س کو رستہ دکھا ئے گی ۔ لیکن تخلیقی قو ت بھی تو بد ن کا مظہر ہے ۔ یہ کیسے مجھے اِ ک ما ورا ئی حقیقت کا صحیح پتہ دے سکتی ہے ۔ دے بھی دے تو اپنے تجر بے کی سچا ئی کو ثا بت کر نے کے لیے کیا دلیل ہو گی ،میرے پا س ؟ میں اِ ن سوا لوں میں اُلجھتی پھر تی تھی اور تحریر ادھو ری اپنے اد ھو رے پن پر ما تم کنا ں ۔ سہ پہر کا وقت تھا میں اپنے اندرونی خلفشار سے گھبرا کر با ہر لا ن میں نکل آئی ۔ لا ن سے ملحق چھو ٹا سا کمرہ جو میرے شوہر کے آفس کے طور پر استعما ل ہو تا ہے ۔ میرے خاوند پیشہ ور وکیل ہیں فو جدا ری مقدمات کے ۔ اِ س بیرو نی کمرے سے تیز تیز آوا زیں لا ن تک آرہی تھیں ۔ میں نے فطری تجسس سے مجبو ر ہو کر ذرا سا آگے ہو کر دیکھا ۔ میں دھک سے رہ گئی ۔ وہ دو سری تیز اور کرخت آوا ز تاری ہلا کو کی تھی ۔ اس کو اپنے میاں کے سا تھ دیکھ کر مجھے فطر ی طور پر اِ ک دھچکا لگا حا لا نکہ فوجدا ری مقدما ت کے وکیل ہو نے کی حیثیت سے اُن کے پا س ہر طرح کے لوگوں کا آنا جا نا اِ ک معمو ل کی با ت تھی مگر تا ری ہلا کو کو اُن کے سا تھ دیکھ کر نجا نے کیوں مجھے اِک دھچکا سا لگا ۔ شا ید اس کی وجہ یہ تھی کہ با قی آنے وا لے لو گ میرے لیے محض کلا ئنٹ کی حیثیت رکھتے تھے اورتا ری ہلا کو میرے لیے انجا ن نہ تھا محض ایک کلا ئنٹ نہ تھا ۔
تا ری ہلا کو کا بھی کبھی عا م انسا نوں سا نا م ہُوا کرتا تھا ۔ وہ ہمیشہ سے تو ایسا نہ تھا ۔ مگر نہیں اُسکے اندر شا ید کسی ہلا کو خا ن کی ہی رو ح تھی ۔ تب بھی جب وہ صرف طا ہر علی تھا ۔ وہمیرے شو ہر کا دور پار کا ر شتے دا ر تھا ۔ جب میری نئی نئی شادی ہوئی تو گا ؤں میں سسرالی رشتے دا روں سے مِلنے جُلنے دعو توں کے سلسلے ہو ئے تب میں نے اسے پہلی با ر دیکھا۔ اس وقت طا ہر علی دس گیا رہ برس کا لڑکا تھا ۔انتہائی نیک وا لدین کی انتہا ئی نا خلف اور شریر اولا د ، شر یر تو شا ید سبھی بچے ہو تے ہیں ۔ اُس کی شرارت سے صرف شر کا پہلو پھو ٹتا تھا ۔ موسیٰ کے گھر فر عو ن پیدا ہو گیا تھا ۔ کیا ایسا بھی ہوتا ہے؟ بچپن سے ہی بے رحمی ، شقی القلبی ، ما ر دھا ڑ ، فتنہ فسا دپھیلا نا اس کی گھٹی میں پڑا تھا ۔ مجھے یاد ہے جب میں اُن کے گھر گئی تھی ۔ تویہ کِسی کا سر پھاڑ کر آیا تھا اور اس با ت پر اس کے با پ نے اُس کو ما را تو اس نے با ہر جا کر غصے میں ایک چو زے کو اِ س بُری طرح دبو چا کہ وہ گلا گھٹنے سے مر گیا ۔ یہ دیکھ کر دہشت سے میرا رنگ سفید پڑگیا اور میرے پیٹ میں ایسے اینٹھن ہو نے لگی کہ نتیجتاً میں نے سا را کھا نا اُگل دیا ۔ دعوت بد مز گی کا شکا ر ہو گئی اور ہم لوگ وہاں سے واپس آگئے ۔ اُس کے بعد گا ؤں تو کئی بار آنا جا نا ہُوا مگر میں پھر کبھی اُس کے گھر نہیں گئی ہاں اُس کے با رے میں اِ سی نو ع کی خبریں ملتی رہتی تھیں ۔ چھوٹی سی عمر میں وہ گھر چھوڑ کر پکا اشتہا ری بن چُکا تھا ۔ کئی قتل و ڈکیتی کی وا ر دتوں میں ملوث و مطلو ب تھا اور جس بے رحمی سے قتل کر تا تھا ۔ اُسی وجہ سے طا ہر علی جو ’’ تا ری‘‘ کے نام سے بلا یا جا تا تھا ۔’’ تاری ہلا کو ‘‘ کہلا یا جا نے لگا ۔
اب یہی تا ری ہلا کو میرے شو ہر کے پا س آیا تھا تو لا ز ماً میرا ٹھٹھک کچھ جانابے جانہ تھا ۔ میرے اِ ستفسا ر پر انہوں نے بتا یا کہ وہ اپنے نہیں اپنے کچھ دو ستوں کے سلسلے میں آیا تھا کہ اپنے با رے میں تو وہ خو د بھی جا نتا ہے کہ ایک دِن کو ئی اندھی گو لی ہی اُس کا مقدر ہے اور وہ اس کے با رے میں کوئی ایسا فکر مند بھی نہیں ۔ وہ ان لو گوں میں سے ہے جو جتنی بھی جیتے ہیں اپنی مرضی اور خوا ہش کے مطا بق زندہ ہتے ہیں ۔ بہر حا ل میں نے انہیں منع کیا کہ وہ اس سے یا اس کے کسی بھی دوست سے تعلق نہ رکھیں ۔ وہ ہنسنے لگے ’’یا ر فوجدا ری وکیلہوں میرے کلا ئنٹ ایسے ہی خطر نا ک لوگ ہیں ‘‘ مگر میرے ٹو کنے پر سنجیدہ ہو کر بو لے :’’ اچھا کوشش کروں گا ٹا لنے کی مگر دیکھو دو ر پار کی ہی سہی رشتہ دا ری کا لحا ظ بھی ہو تا ہے ‘‘ ۔میں نے چڑ کر کہا :’’ ہاں اور یہ خیا ل دو طر فہ ہو تا ہے یک طرفہ نہیں ‘‘ وہ ہنس کر بو لے :’’ آخر ہو نہ وَکیل کی بیوی‘‘ با ت مذا ق میں ڈھل کر ختم ہو گئی ۔ اُس کے بعد دو تین دفعہ پھر وہ آیا یہ مجھے اپنے ملازم سے پتہ چلا لیکن میرے میاں نے غا لباً اُسے ٹا ل دیا ۔
اُس دِ ن میں با ہر لا ن میں ہی بیٹھی تھی کہ میرے میاں کے آفس سے اُن کے بری طرح کرا ہنے کی آواز آئی ۔ میں بری طرح بد حواس ہو کر بغیر پرواہ کیے ۔ اُدھر کو لپکی دیکھا تو وہ اپنا سر پکڑے میز کے سہارے کھڑے تھے اور بھل بھل خو ن بہہ رہا تھا ۔ میں نے حوا س با ختہ بیرو نی دروا زے کی جا نب دیکھا مجھے لگا کہ میں نے تا ری ہلا کو کی ہلکی سی جھلک دیکھی ہے ۔ بہر حا ل فی الفور تو فوری طور پر میرے میاں کو میری ضرورت تھی ۔ اُن کو فوری طور پر ہسپتا ل لیجا یا گیا۔ پٹی ہو ئی شُکر صد شکر کہ ز خم کی نو عیت کچھ ایسی مہلک نہ تھی اور حا لت زرا بہتر ہو نے پر میرے استفسار پر انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ وا قعی تا ری ہلا کو تھا ۔اُس دِ ن ذرا سی با ت پر مشتعل ہو کر اُس نے بو تل سے میرا سر کھو ل دیا۔ میں جتا تی نظر وں سے اُن کی جانب دیکھا تو وہ نا را ضگی سے بو لے : ’’ ہاں تو تمہا را کیا خیا ل ہے میں اُسے اپنے پا س آنے سے رو کتا تو کیاا س وقت مشتعل ہو کر ایسی حر کت نہ کر سکتا تھا ۔ وہ تو نہ جا نے کو ئی پیدائشی خبیث روح ہے اما ں بتا تی ہیں جب وہ پیدا ہُوا تو اس کے ما تھے پر گہری سُرخ لکیر تھی دا ئی نے تو اُسی وقت کہاتھا:’’ یہ بچہ بڑا جلا لی ہے اور دیکھ لو وہ سا نس لینے کو رُکے ابھی کیا عمر ہے اُس کی بمشکل اکیس با ئیس برس اور وہ پکا اشتہا ری مجرم جا نے کب کو ئی گو لی اُسے چاٹ جائے ‘‘ وہ نہ جا نے کیا کہہ رہے تھے مگر مجھے پل لگا اپنی دُنیا میں گم ہونے میں میرے دماغ میں تو ’’ پیدا ئشی خبیث رو ح ‘‘ما تھے کا سُرخ نشا ن گر دش کر رہے تھے ۔ مجھیلگا کہ جیسے اِک اور حقیقت کا در مجھ پر کُھلا ۔ اُس دِن بڑے عرصے بعد میں نے قلم سنبھا لا:’’ تو کیا یہ بدن ہی نہیں رو حیں بھی ہیں جو خبیث اور شیطا نی قوتوں کی نما ئندہ ہو تی ہیں۔ کیا یہ پہلے روح نہیں تھی جو دا نۂ گند م کے خما ر سے متا ثر ہو ئی اور بعد میں اسے مجسم بھٹکنے کو زمین پر اُتا را گیا۔ کیا رو حیں اس قدر مخمو ر بھی ہو سکتی ہیں کہ بدن پر نسبتیں ظا ہر ہو نے لگیں ۔ کیا شیطان کی نمائندگی کر نے کو جوق در جوق رو حیں نہیں اُتریں زمیں پر ؟ بدی اور نیکی زمین کی دو متضا د قوتیں جس کا پلڑا بھا ری ہو جا ئے ۔ زند گی کا توا ز ن بگڑ جا ئے کہ را ت جتنی لمبی و طویل ہو صبح کی اُمید میں کٹ جا تی ہے اور دِ ن چا ہے کیسا رو شن اور دیر و دور تک کھلا رہے رات کا پُر سکون اندھیرا ہی حُسن قا ئم رکھتا ہے
میں کچھ دیر کورُک گئی لگا مز ید اُلجھ گئی ہوں یہ میرے بس کی با ت ہی نہیں کہ میں طے کر سکوں کہ یہ اثرِ خما ر روح کو چڑھا تھا یا پھر بد ن کو کیا رو ح بھی غلیظ ہو تی ہے؟ کیا روحیں شیطا ن و رحما ن کی نما ئندہ نہیں ہو تی ہیں ۔ یہ حقیقت کبھی نہیں سمجھ پا ؤں گی اور میں نے اپنی اس تحر یر کو یو نہی نا مکمل ادھورا چھوڑ دیا ۔