شیخ کے گھر کے سامنے آب حرام ڈال دوں

شیخ کے گھر کے سامنے آب حرام ڈال دوں
جام و سبو کی آگ میں اپنا کلام ڈال دوں


شہر کے اس ہجوم میں جینے کا حوصلہ رکھوں
اپنے جنوں کی آگ میں شہر کی شام ڈال دوں


صبح سے کچھ عجیب غم دشت میں ہیں ہمارے ساتھ
ان کے سروں پہ میں ذرا چادر شام ڈال دوں


بستر مرگ پر مجھے جینے کے خواب دے گئے
جاؤں انہی کے سامنے ان کا کلام ڈال دوں


آج شب وصال ہے دیکھیں گے آپ ہجر بھی
آگ جلا کے عشق کی اس میں دوام ڈال دوں