غم جاناں کی خبر لاتی ہے
غم جاناں کی خبر لاتی ہے کوئی آواز اگر آتی ہے جانے کس سمت ہوا کی زنجیر کھینچ کر مجھ کو لیے جاتی ہے کیسا عالم ہے کہ تنہائی بھی در و دیوار سے ٹکراتی ہے ناگہاں آئی تھی ہم پر بھی جمیلؔ وہ قیامت جو گزر جاتی ہے
غم جاناں کی خبر لاتی ہے کوئی آواز اگر آتی ہے جانے کس سمت ہوا کی زنجیر کھینچ کر مجھ کو لیے جاتی ہے کیسا عالم ہے کہ تنہائی بھی در و دیوار سے ٹکراتی ہے ناگہاں آئی تھی ہم پر بھی جمیلؔ وہ قیامت جو گزر جاتی ہے
اپنے سب چہرے چھپا رکھے ہیں آئینے میں میں نے کچھ پھول کھلا رکھے ہیں آئینے میں تم بھی دنیا کو سناتے ہو کہانی جھوٹی میں نے بھی پردے گرا رکھے ہیں آئینے میں پھر نکل آئے گی سورج کی سنہری زنجیر ایسے موسم بھی اٹھا رکھے ہیں آئینے میں میں نے کچھ لوگوں کی تصویر اتاری ہے جمیلؔ اور کچھ لوگ ...
دست جنوں میں دامن گل کو لانے کی تدبیر کریں نرم ہوا کے جھونکو آؤ موسم کو زنجیر کریں موسم ابر و باد سے پوچھیں لذت سوزاں کا مفہوم موجۂ خوں سے دامن گل پر حرف جنوں تحریر کریں آمد گل کا ویرانی بھی دیکھ رہی ہے کیا کیا خواب ویرانی کے خواب کو آؤ وحشت سے تعبیر کریں رات کے جاگے صبح کی ہلکی ...
ایک پتھر کہ دست یار میں ہے پھول بننے کے انتظار میں ہے اپنی ناکامیوں پہ آخر کار مسکرانا تو اختیار میں ہے ہم ستاروں کی طرح ڈوب گئے دن قیامت کے انتظار میں ہے اپنی تصویر کھینچتا ہوں میں اور آئینہ انتظار میں ہے کچھ ستارے ہیں اور ہم ہیں جمیلؔ روشنی جن سے رہ گزار میں ہے
وہ باتیں عشق کہتا تھا کہ سارا گھر مہکتا تھا مرا محبوب جیسے گل تھا اور بلبل چہکتا تھا سفر میں شام ہو جاتی تو دل میں شمعیں جل اٹھتیں لہو میں پھول کھل جاتے جہاں غنچہ چٹکتا تھا کبھی میں سرو کی صورت نظر آتا تھا یاروں کو کبھی غنچے کی صورت اپنے ہی دل میں دھڑکتا تھا خدا جانے میں اس کے ...
ایشیا کی اس ویران پہاڑی پر موت ایک خانہ بدوش لڑکی کی طرح گھوم رہی ہے میری روشنی اور انار کے درختوں میں قزاقوں کے چاقو چمکتے ہیں اور سر پر وہ چاند ہے جو اس پہاڑی کا پہلا پیغمبر ہے اس پہاڑی پر فاطمہ رہتی ہے اس کے کپڑوں میں وہ کبوتر ہیں جو کبھی اڑ نہیں سکتے خدا نے ہمیں ایک غار میں بند ...
میں اپنے گھر میں دیئے کی طرح جلنا چاہتا تھا مگر اب ایک فلیٹ میں بلب کی صورت جل رہا ہوں اگر کوئی مجھے بجھانا چاہتا ہے تو میرے بچے پھر مجھے جلا دیتے ہیں
یہ سماں اور رات کی جادوگری چاند کا لے کر چلی ہاتھوں میں تاج کچھ طلسمی لوگ پتھرائے ہوئے کچھ طلسمی لڑکیاں جیسے تمناؤں کے مور جن سے آ کر کھیلتی ہے رات کی نیلم پری اور جا کر ناچتی ہے شام تک ہر قدم پر ایک شہزادے کی موت
جب میں بچہ تھا راوی کے گالوں سے ڈرتا تھا اب دشمن کی چالوں سے ڈرتا ہوں میرے بچپن میں آگ کی اطراف دراوڑ لڑکیاں گیت گاتی تھی اور اب میں ایک ہوٹل میں بینڈ بجاتا ہوں اور لومڑی کی کھال سے اپنا لباس سیتا ہوں
میں حسن مطلق کی کرسی پر بیٹھ کر ایک گداگر سے شہر کا فسانہ سن رہا ہوں