شہباز شریف کا دورہ ترکی: کیا موجودہ حکومت کو ترکیہ کا تعاون حاصل ہوسکے گا؟

یہ جون 2018 کا مہینہ تھا، ایف اے ٹی ایف کا اجلاس جاری تھا۔ پاکستان کی گردن ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پھنسانے کی تیاری تھی۔ پاکستان کی مخالف لابیاں، جن میں امریکہ بھی شامل تھا، مضر تھے کہ پاکستان دہشت گردی کو روکنے کے لیے  سخت اقدامات نہیں کر رہا۔  لہٰذا اسے گرے لسٹ میں منتقل کر دیا جائے۔  ایسے میں پاکستان نے اپنے حلیفوں کی طرف نظریں اٹھائیں۔ چین، جس کی دوستی کوہ ہمالیہ سے اونچی، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی تھی اور برادر اسلامی ملک سعودی عرب خاموش نظر آئے۔ پاکستان مشکل میں تھا لیکن اس کے دو مضبوط سہارے اس کا وزن اٹھانے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے تھے۔ ایسے میں  صرف ایک  آواز پاکستان کے حق میں بلند ہوئی۔ وہ تھی ترکیہ کی۔ ظاہر ہے یہ  اکیلی آواز اتنی تگڑی تو نہیں تھی کہ پاکستان کو بچا پاتی لیکن اس نے یہ بتا دیا کہ ترکیہ  ہر سرد وگرم میں پاکستان کے ساتھ ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ ترکیہ میں  ترک صدر کی جانب سے وزیر اعظم کا استقبال، مشترکہ پریس کانفرنس اور ستمبر میں پاکستان کے دورے کی خواہش، اس بات کی علامت ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں کس قدر گرم جوشی موجود ہے۔   دونوں ممالک کے مابین دوہری شہریت کا معاہدہ موجود ہے،ترکیہ کے شہریوں کو پاکستان میں بنا ویزے کے داخلے کی اجازت ہے اور پاکستانیوں کو بھی تین ماہ کے دورہ ترکیہ  کے لیے ویزہ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے مابین سفارتی، عسکری، معاشی، تجارتی اور خدمات کے شعباجات میں ایک دوسرے  کا تعاون حاصل ہے۔

Trade exchange tops the agenda of the Pakistani Prime Minister's visit to  Turkey - Teller Report

آئیے چل کر ایک ایک کو تفصیل سے دیکھتے ہیں۔

سفارتی تعاون:

ترکیہ آج کل خاصا سفارتی طور پر مضبوط ملک نظر آتا ہے۔  اس کا  اندازہ عالمی منظر نامے پر ہونے والی حالیہ چند  ڈویلپمنٹس سے لگایا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ آپ سن رہے  ہوں گے  کہ روسی خطرے کے پیش نظر کچھ یورپی ممالک جیسا کہ سویڈن نے نیٹو میں شمولیت کی خواہش ظاہر کی ہے، لیکن اس کا راستہ ترکیہ نے روکا ہے۔ نیٹو کے آئین کے مطابق سکیورٹی الائنس میں کوئی بھی نیا ملک اس وقت تک شامل نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ تمام ممالک رضا مند نہ ہوں۔  ترکیہ کردش تنظیم پی کے کے، جسے وہ دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے کی حمایت اور معاونت کی وجہ سے سویڈن کو نیٹو میں  شامل ہونے نہیں دے رہا اور مغربی طاقتیں چاہ کر بھی اس پر دباؤ نہیں ڈال پا رہیں۔ اس کی ایک تو وجہ یہ ہے کہ  نیٹو اتحاد میں ترکیہ امریکہ کے بعد دوسری بڑی عسکری طاقت ہے، جس کی ضرورت مغربی طاقتوں کو روس سے بررائے راست تنازعے کے وقت پڑ سکتی ہے۔ دوسرا ترکیہ وہ  ملک ہےجو نیٹو کے ساتھ ساتھ روس پر بھی اثر رسوخ رکھتا ہے۔ عالمی حالات کے ماہرین کے مطابق اس وقت صرف دو ایسے ممالک ہیں جو  چار ماہ سے جاری روس یوکرائن تنازعے میں سفارتی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایک اسرائیل اور دوسرا ترکیہ۔

ان سب مثالوں کی روشنی میں نظر آ رہا ہے کہ ترکیہ اس وقت مضبوط سفارتی ملک ہے۔ اسی لیے اگر اسے پاکستان کا ایک مضبوط سفارتی حلیف سمجھا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ترکیہ   کی سفارتی حمایت ہمیں دو جگہ پر درکار ہوتی ہے۔ ایک  ایف اے ٹی ایف جیسے عالمی فورمز پر اور دوسرا کشمیر کے معاملے پر۔ ترکیہ دونوں جگہوں پر پاکستان کی حمایت کرتا ہے۔ بدلے میں پاکستان بھی ترکیہ کو سائپرس اور پی کے کے اور فتح اللہ گولن کی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دینے کے معاملات پر حمایت فراہم کرتا ہے۔ یوں مفادات کی دو طرفہ گاڑی چلتی رہتی ہے۔ 

عسکری تعاون:

حالیہ برسوں میں ترکیہ نے  اپنی دفاعی صنعت کو بہت ترقی دی ہے۔  اس  کے مقامی طور پر تیار ہونے والے ہتھیار دنیا بھر میں مقبول ہو رہے ہیں۔ 2018 میں ترکیہ اور پاکستان کے  مابین چار   جنگی فریگیٹس یعنی بحری بیڑوں کی تیاری کا معاہدہ طے پایا تھا۔ یہ  جدید ترین فریگیٹس پاک بحریہ کے لیے تیار کی  جانی تھیں۔ دو ان میں سے ترکیہ اور دو کراچی کے شپ یارڈ میں تیار ہونا تھیں۔  ان چار میں سے تین اب تک لانچ ہو چکی ہیں، جبکہ چوتھی ممکنہ طور پر ستمبر تک  لانچ ہو جائے گی۔ چارو فریگیٹس اگست 2023 سے پاکستان کے حوالے ہونا شروع ہو جائیں گی۔

Chief of Army Staff of Pakistan visits Turkey

اسی طرح پاکستان ترکیہ سے T-129 حملہ آور ہیلی کاپٹر خریدنے میں بھی دلچسپی رکھتا تھا جو کہ امریکی پابندیوں کے باعث ممکن نہ ہو پایا۔ پاکستان نے ترکیہ سے ٹی بی 2 ڈرونز بھی حاصل کیے ہیں۔ان خریداریوں کے علاوہ دونوں ممالک آپس میں  فوجی تربیت کے پروگرام بھی ترتیب دیتے رہتے ہیں۔

معاشی تعاون:

پاکستان اور ترکیہ کے مابین اس وقت تقریباً ایک ارب ڈالر کے نزدیک تجارت ہو رہی ہے۔ یہ کوئی بڑا تجارتی حجم نہیں ہے۔ اسے تیزی سے پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک آپس میں بہت سی اشیا کی خرید و فروخت کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ترکیہ کو ٹیکسٹائل مارکیٹ کے طور پر ٹارگٹ کرے۔ شہباز شریف نے بھی اپنے دورے میں ترکیہ تاجروں کو پاکستان  کے ساتھ پانچ ارب ڈالر کی تجارت  کے امکانات کی نشان دہی کی ہے۔ انہوں نے ترکیہ کے سرمایہ کاروں کو توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت بھی دی ہے۔ پاکستان  اور ترکیہ کے مابین براستہ ایران کارگو ریل دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو خاصا بڑھا سکتی ہے۔ اس کی تعمیر کی اشد ضرورت ہے۔

خدمات کے شعبے میں تعاون:

ترکیہ اور پاکستان کے مابین خدمات کے شعبے میں بہت جگہ تعاون موجود ہے۔ جیسا کہ لاہور کی میٹرو کو ڈیزائن ترکیہ نے کیا تھا۔ اسی طرح ترک کمپنیاں ویسٹ مینجمنٹ کی سہولیات بھی فراہم کر رہی ہیں۔

حاصل کلام:

پاکستان اور ترکیہ کے مابین گہرے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی رشتے موجود ہیں۔ پاکستان نے 1947 میں آزادی کے بعد جب اپنی کرنسی  رائج کرنا چاہی تھی تو یہ ترکیہ تھا جس نے پہلی بار پاکستان کو کرنسی چھاپ کر دی تھی۔ اس کے بعد سے پاکستان اور ترکیہ کے مابین مختلف تعاون جاری ہیں۔  لیکن ایک بات جو بطور پاکستان تمام تعلق میں محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان تمام تعاون میں حاصل کنندہ اور ترکیہ نجات دہندہ سا محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ دنیا کے معاملات مفادات کی بنا پر ہی طے ہوتے ہیں۔ کوئی کسی کے لیے نجات دہندہ نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان معاشی طور پر کمزور ہے اور اس کے لوگوں کے پاس  جدید مہارتیں موجود نہیں۔ اس کے پاس کچھ زیادہ ایسا موجود نہیں جس  کی ضرورت ترکیہ کو ہو۔ نہ تو پاکستان اپنی زراعت کو ایسی تررقی دے سکا ہے کہ ترکیہ کی ضرورت بن سکے اور نہ ہی دفاع میں ایسا مضبوط ہو سکا ہے۔ یہ بہت خطرناک بات ہے۔ ہمیں روز مرہ کی چھوٹی موٹی باتوں میں الجھنے کے بجائے اس طرف دھیان دینا چاہیے۔  قومیں نہ تو خوش فہمیوں کے ساتھ زندہ رہتی ہیں اور نہ خود انحصار ہوئے بغیر۔

متعلقہ عنوانات