شفق کرنیں کنول تالاب اس کے

شفق کرنیں کنول تالاب اس کے
یہ منظر سب حسیں شاداب اس کے


چلو کہنے کو ہیں نیندیں ہماری
مگر آنکھوں میں سارے خواب اس کے


جہان تیرگی عالم ہمارا
اجالے روشنی کے باب اس کے


اسی کی ذات وجہ نور و نغمہ
یہ جھرنے کہکشاں مہتاب اس کے


کتاب زندگی پر نام اپنا
جو اندر دیکھیے ابواب اس کے


ہماری گفتگو واہی تباہی
مگر اقوال سب نایاب اس کے


قتیل دوستاں جاویدؔ اپنا
ملے تھے آج پھر احباب اس کے