نہ منزلوں کا تعین نہ کوئی جادہ تھا

نہ منزلوں کا تعین نہ کوئی جادہ تھا
عجب تھے لوگ سفر کا مگر ارادہ تھا


انہیں تھا زعم قیادت کہ جن کے حصہ میں
نہ تھی نگاہ میں وسعت نہ دل کشادہ تھا


وہ شہسوار تھے گھوڑے بھڑک گئے ان کے
میں آج ہوں سر منزل کہ پا پیادہ تھا


غم حیات کو تم سہہ نہیں سکے ورنہ
ہمارا حال تو تم سے کہیں زیادہ تھا


مسرتوں کے نگر کی تم ایک شہزادی
غموں کے دیس کا میں بھی تو شاہزادہ تھا


بھلا فریب نہ کھاتا تو اور کیا کرتا
ہنسی لبوں پہ تھی لہجہ بھی اس کا سادہ تھا


میں جس کو پیکر صدق و صفا سمجھتا تھا
پتا چلا کہ وہ رنگین اک لبادہ تھا