میری فکروں میں رچا دل کے قریں لگتا ہے
میری فکروں میں رچا دل کے قریں لگتا ہے
وہ تو پہلے سے کہیں اور حسیں لگتا ہے
گرچہ اک بھیڑ ہے ہر سمت ہر اک کوچہ میں
مجھ کو ہر شخص مگر گوشہ نشیں لگتا ہے
اپنا سرمایہ یہی ٹوٹتے لمحوں کی تھکن
دل مگر ہے کہ جواہر کا امیں لگتا ہے
تم نے دیکھا نہیں ہوگا کوئی منظر ایسا
ہر فلک آج ہمیں زیر زمیں لگتا ہے
ایک ہم تھے کہ چلے آئے سر منزل عشق
اور جو شخص جہاں تھا وہ وہیں لگتا ہے
اس کی تحریر نہیں سلک گہر ہے جاویدؔ
اس کا ہر قول کہ خاتم کا نگیں لگتا ہے