شبنم شبنم روتا ہے

شبنم شبنم روتا ہے
دریا ہو کر پیاسا ہے


دل کی بنجر دھرتی پر
یار کا موسم آیا ہے


نفرت کا احساس ہوا
جب جب شیشہ دیکھا ہے


میں بھی کم کم ملتا ہوں
وہ بھی کٹ کٹ جاتا ہے


میرے گھر آ دیکھ ذرا
ہر سو تو ہی بکھرا ہے


راتوں کو رونا اس کا
بے خوابی کا قصہ ہے


جتنا جی چاہے ہنس لو
سب کو اک دن رونا ہے


گھر سے باہر نکلو تو
دنیا جیسی دنیا ہے


رشتے ناطے کھیل سمجھ
کون کسی کا ہوتا ہے


جس کو اپنی جاں کہتے ہو
ایک دن اس کو بھی کھونا ہے


کچے پکے رشتوں کا
دکھ فرحانؔ کو سہنا ہے