ہر ایک سے بیزار وہ اپنے میں مگن ہے
ہر ایک سے بیزار وہ اپنے میں مگن ہے
شاید اسے چہروں کو پرکھ لینے کا فن ہے
ہونے سے نہ ہونے کے سفر میں ہیں سبھی گم
حالانکہ ہر اک چہرے پہ صدیوں کی تھکن ہے
اس شہر کی محدود مزاجی کا اثر دیکھ
گو ذہن کشادہ ہیں دلوں میں تو گھٹن ہے
الفاظ لب و گیسؤو رخسار ہیں اس کے
غزلوں کی قباؤں میں چھپا پھول بدن ہے
ہاں میں نے کبھی خواب میں دیکھی تھی وہ دنیا
فرحانؔ مگر اب تلک آنکھوں میں جلن ہے