ایسی تھی آگ وقت کی رشتے بھی جل گئے
ایسی تھی آگ وقت کی رشتے بھی جل گئے
آبائی رکھ رکھاؤ کے قصے بھی جل گئے
جسموں میں کھولتا ہی رہا آگہی کا خون
تپتے ہوئے خیال میں لہجے بھی جل گئے
گہری ریاضتوں سے میں سورج نما ہوا
پھر یوں ہوا کہ خون کے رشتے بھی چل گئے
وہ کیا گیا کہ چار سو چنگاریاں ہیں اب
اوراق پر سجے ہوئے سپنے بھی جل گئے
تلخی بھرے مزاج سے چاہت جھلس گئی
اپنوں سے اب ملاپ کے جذبے بھی جل گئے