جب بھی میں خود سے اوب جاتا ہوں
جب بھی میں خود سے اوب جاتا ہوں
میرؔ صاحب کو گنگناتا ہوں
جھوٹ کیوں سوئیاں چبھوتا ہے
آنکھ جب سچ سے میں چراتا ہوں
وار کرتا ہوں جب خلاؤں میں
جھومتا اور مسکراتا ہوں
جب کبھی جی ذرا سنبھلتا ہے
کچھ نئے درد ڈھونڈ لاتا ہوں
خواب پلکوں پہ رک نہیں پاتے
کون آتا ہے چونک جاتا ہوں
روز مجھ کو وہ یاد آتا ہے
روز میں خود کو بھول جاتا ہوں
آسماں تک اڑان ہے میری
میں بھلا کس کے ہاتھ آتا ہوں