شباب موسم ہرے چمن میں اتارنا ہے
شباب موسم ہرے چمن میں اتارنا ہے
کمال جتنا بھی ہے سخن میں اتارنا ہے
خدائے فن تو مرے قلم میں اتر کہ میں نے
کسی کو غزلوں کے پیرہن میں اتارنا ہے
وہ جتنا سونا بھی کوہ سر میں پڑا ہوا ہے
بنا کے کندن کسی بدن میں اتارنا ہے
نکھار دے جو مری نظر کے تمام منظر
وہ نور سر کے اجاڑ بن میں اتارنا ہے
ابھی سے ظلمت کدہ میں تھک کر نڈھال ہو تم
ابھی تو سورج کرن کرن میں اتارنا ہے
یہ اپنی فطرت ہے یا کہ سادہ دلی ہے یارو
جو ہنس کے بولے اسے بھی من میں اتارنا ہے
ہمیں خبر ہے کہ کیا ہے یہ شغل شعر گوئی
کہ ریشہ ریشہ جگر کا فن میں اتارنا ہے
کسی کو طاہر عدیمؔ مسند یہ سونپنی ہے
کسی کو دل کے اکیلے پن میں اتارنا ہے