ہے اسی شہر کی گلیوں میں قیام اپنا بھی
ہے اسی شہر کی گلیوں میں قیام اپنا بھی
ایک تختی پہ لکھا رہتا ہے نام اپنا بھی
بھیگتی رہتی ہے دہلیز کسی بارش میں
دیکھتے دیکھتے بھر جاتا ہے جام اپنا بھی
ایک تو شام کی بے مہر ہوا چلتی ہے
ایک رہتا ہے ترے کو میں خرام اپنا بھی
کوئی آہٹ ترے کوچے میں مہک اٹھتی ہے
جاگ اٹھتا ہے تماشا کسی شام اپنا بھی
ایک بادل ہی نہیں بار گراں سے نالاں
سرگراں رہتا ہے اک زور کلام اپنا بھی
کوئی رستہ مرے ویرانے میں آ جاتا ہے
اسی رستے سے نکلتا ہے دوام اپنا بھی
ایک دل ہے کہ جسے یاد ہیں باتیں اپنی
ایک مے ہے کہ جسے راس ہے جام اپنا بھی
یوں ہی لوگوں کے پس و پیش میں چلتے چلتے
گرد اڑتی ہے بکھر جاتا ہے نام اپنا بھی
مبتلا کار شب و روز میں ہے شہر نویدؔ
اور اسی شہر میں گم ہے کوئی کام اپنا بھی