خمار شب میں زمیں کا چہرہ نکھر رہا تھا
خمار شب میں زمیں کا چہرہ نکھر رہا تھا
کوئی ستاروں کی پالکی میں اتر رہا تھا
نہا رہے تھے شجر کسی جھیل کے کنارے
فلک کے تختے پہ چاند بیٹھا سنور رہا تھا
ہوائیں دیوار و در کے پیچھے سے جھانکتی تھیں
دھواں لپیٹے کوئی گلی سے گزر رہا تھا
کھڑا تھا میری گلی سے باہر جہان سارا
میں خواب میں اپنے آپ سے بات کر رہا تھا
ہوا کا جھونکا اداس کر کے چلا گیا ہے
ابھی ابھی تو میں جام غفلت کو بھر رہا تھا
اور اب ٹھہر جا نویدؔ آگے تو کچھ نہیں ہے
تو عمر بھر اس خیال سے بے خبر رہا تھا