سراب صحرا میں پانی تلاش کرتا ہے
سراب صحرا میں پانی تلاش کرتا ہے
وہ دلدلوں میں روانی تلاش کرتا ہے
ہر ایک ذرے سے پہچان رب کی ہوتی ہے
وہ پھر بھی اس کی نشانی تلاش کرتا ہے
اسے یقین ہے اپنے خدا کی رحمت پر
جو تپتے صحرا میں پانی تلاش کرتا ہے
کتاب دل کو سمجھنا محال ہے اس کا
وہ چہرا چہرا معانی تلاش کرتا ہے
نئے غموں کے اندھیروں سے جنگ ہے اس کی
بجھے دیوں کی جوانی تلاش کرتا ہے
ہوں راجہ رانی, ہوں لشکر, ہوں ہاتھی گھوڑے سب
وہ ہر کہانی میں نانی تلاش کرتا ہے
بہت شریف ہے تو چاندؔ جا کے سنسد میں
کبیرؔ داس کی وانی تلاش کرتا ہے