بازار ترے شہر کے بدنام بہت ہیں

بازار ترے شہر کے بدنام بہت ہیں
چھوٹی سی خوشی کے بھی یہاں دام بہت ہیں


میں کیسے چلوں حوصلے کا ہاتھ پکڑ کر
اس زندگی میں گردش ایام بہت ہیں


ہونٹوں سے بغاوت کی سدا کیسے ہو جاری
واعظ کو حکومت سے ابھی کام بہت ہیں


اس دور میں امید کروں عدل کی کیسے
منصف پہ ہی جب قتل کے الزام بہت ہیں


آغوش میں اور وقت کے باقی ہیں سخنور
غالبؔ بھی کئی میرؔ بھی خیامؔ بہت ہیں


یہ شہر بھی محفوظ نہیں قہر خدا سے
ساقی بھی ہیں مے خانے بھی ہیں جام بہت ہیں


وہ ذات ہے واحد وہ ہی خالق وہ ہی رازق
مخلوق نے پر اس کو دئے نام بہت ہیں


امداد و عبادت میں ریا کاری نہ ہو چاندؔ
اخلاص عمل پر وہاں انعام بہت ہیں