سمندر کا خیال
اپنی دہلیز پہ کھڑا تنہا
اپنا گھر اجنبی سا لگتا تھا
اس کی رخصت تھی مانند پرواز
ہر طرف ابتری کا منظر تھا
ایک لکنت زدہ سی ویرانی
در و دیوار پہ تھی حیرانی
لرزتے آنسو اور دکھتا ہوا سر
روکتے تھے اسے پیمائش ویرانی سے
وہ کہ سویا ہے یا کہ جاگا ہے
صبح سے کیوں یہ سمندر کا خیال ذہن میں آج تھپیڑے مارے
کہر آلود بند دریچوں میں
جو وسیع کائنات چھپتی ہے
ناامیدی کی نیلگوں چادر ایک سمندر سی پھیل جاتی ہے
کیوں یہ رہ رہ کے سمندر کا خیال ذہن میں آج تھپیڑے مارے
کتنی مانوس تھی قریب تھی وہ
جیسے ساحل ہو اک سمندر سے
بے کراں موج جیسے ساحل کی گود میں آ کے ہی دم لیتی ہے
اس کی تصویر اس کے ہلتے لب
سارے منظر ہیں زیر آب کہیں
اک تلاطم کے بعد سرکنڈے
جیسے پاتال میں چھپ جاتے ہیں
کیوں یہ رہ رہ کے سمندر کا خیال ذہن میں آج تھپیڑے مارے
شام کے دودھیا دھندلکوں میں
تنہا تنہا اداس پھرتا ہے
رات جب سسکیوں میں ڈھلتی ہے
پھر سمندر کی یاد آتی ہے
یہ حسیں وادیاں اس سے مانوس تھیں اس کی جاگیر تھیں
ایک طوفان پیہم ہوا میں خروش
سب حسیں وادیاں یک بیک سو گئیں