بیمار گڑیا
کہ شاید خزاں چھو گئی اسے
آج خاموش ہے
چل کے دیکھیں کہیں
آج پھر زیر دل
ایک معصوم خواہش کی شدت
پھر کسی ادھ جلے خواب کی جستجو تو نہیں
تتلیاں سبز و نیلی
سر پھرے رقص و بو کے جہاں سے
کتنی مانوس و سرشار ہیں
اور میں اپنے اچھے خدا سے
کتنی بیزار ہوں
تھک گئی ہوں
چاند تاروں کو چھونے کی خواہش
چوٹیوں تک پہنچنے کی خواہش
ایک بے نغمہ بے ساز وسعت
دل دھڑکنے سے بھی ہچکچائے
صورت دود سا یہ گریزاں
نیلی تاریکیوں سے شگفتہ
قہقہے مارتی میں جو نکلی
میرے خوابوں کے بیدار چہرے
سارے ساحل پہ نوحہ خواں ہیں