سمجھ میں آتا نہیں ہے کہ گنگناؤں کیا

سمجھ میں آتا نہیں ہے کہ گنگناؤں کیا
وہ خود غزل ہے اسے میں غزل سناؤں کیا


تو سر سے پاؤں تلک حسن کی علامت ہے
یقیں نہ ہو تو تجھے آئینہ دکھاؤں کیا


میں حال دل کا تجھے کس طرح بتاؤں اب
تو جانتا ہے مرے دل کی دل دکھاؤں کیا


وہ روٹھے اور مناؤں میں سوچتا ہوں مگر
جو روٹھتا ہی نہیں ہو اسے مناؤں کیا


بدن ہے تاج محل اور آنکھیں ساغر ہیں
میں شوق پینے کا اپنا تجھے بتاؤں کیا


وہ کہہ رہا ہے یقیں کرکے دیکھ لو لیکن
میں جانتا ہوں اسے سیفؔ آزماؤں کیا