جذبۂ عشق جب ابھر آیا

جذبۂ عشق جب ابھر آیا
دور تک تو مجھے نظر آیا


اس کو اتنا یقین ہے مجھ پہ
جب بھی بہکا ہے وہ ادھر آیا


دل کو دل سے ہے انسیت ایسی
اس کو سوچا تو وہ نظر آیا


اک قیامت کا سامنا تھا جب
بے خیالی میں وہ نظر آیا


بھیگی پلکوں سے خواب بنتا تھا
اب حقیقت پہ دل اتر آیا


زندگی اس کے عشق میں گزری
تب محبت میں یہ اثر آیا


سیفؔ اکثر ہوا ہے ایسا بھی
وہ نہ آیا تو دل بھی بھر آیا