پھر تڑپ کے قرار لکھنا ہے

پھر تڑپ کے قرار لکھنا ہے
عشق لکھنا ہے پیار لکھنا ہے


زندگی کا مطالبہ دیکھو
زندگی کو بھی یار لکھنا ہے


زہر کا ہے اثر فضاؤں میں
اور ہم کو بہار لکھنا ہے


لے کے سر آ گئے ہیں مقتل میں
دوستوں کی یہ ہار لکھنا ہے


اس نے کانٹوں کو پھول لکھ ڈالا
ہم کو پھولوں کو خار لکھنا ہے


سیفؔ چل چل کے تھک گئے ہیں ہم
اب سکوں اور قرار لکھنا ہے