محمد سیف بابر کے تمام مواد

5 غزل (Ghazal)

    جذبۂ عشق جب ابھر آیا

    جذبۂ عشق جب ابھر آیا دور تک تو مجھے نظر آیا اس کو اتنا یقین ہے مجھ پہ جب بھی بہکا ہے وہ ادھر آیا دل کو دل سے ہے انسیت ایسی اس کو سوچا تو وہ نظر آیا اک قیامت کا سامنا تھا جب بے خیالی میں وہ نظر آیا بھیگی پلکوں سے خواب بنتا تھا اب حقیقت پہ دل اتر آیا زندگی اس کے عشق میں گزری تب ...

    مزید پڑھیے

    کچھ کہا یا سنا نہیں جاتا

    کچھ کہا یا سنا نہیں جاتا درد اب یہ سہا نہیں جاتا سخت مشکل میں ہیں کہ پیاسے ہیں اور تم سے کہا نہیں جاتا آ بھی جاؤ کہ اب یہ حالت ہے بن تمہارے رہا نہیں جاتا چھوڑ کر جام پیاسے محفل سے بے ادب یوں اٹھا نہیں جاتا سیفؔ بے پردہ سامنے ہے وہ فاصلہ اب سہا نہیں جاتا

    مزید پڑھیے

    سمجھ میں آتا نہیں ہے کہ گنگناؤں کیا

    سمجھ میں آتا نہیں ہے کہ گنگناؤں کیا وہ خود غزل ہے اسے میں غزل سناؤں کیا تو سر سے پاؤں تلک حسن کی علامت ہے یقیں نہ ہو تو تجھے آئینہ دکھاؤں کیا میں حال دل کا تجھے کس طرح بتاؤں اب تو جانتا ہے مرے دل کی دل دکھاؤں کیا وہ روٹھے اور مناؤں میں سوچتا ہوں مگر جو روٹھتا ہی نہیں ہو اسے مناؤں ...

    مزید پڑھیے

    پھر تڑپ کے قرار لکھنا ہے

    پھر تڑپ کے قرار لکھنا ہے عشق لکھنا ہے پیار لکھنا ہے زندگی کا مطالبہ دیکھو زندگی کو بھی یار لکھنا ہے زہر کا ہے اثر فضاؤں میں اور ہم کو بہار لکھنا ہے لے کے سر آ گئے ہیں مقتل میں دوستوں کی یہ ہار لکھنا ہے اس نے کانٹوں کو پھول لکھ ڈالا ہم کو پھولوں کو خار لکھنا ہے سیفؔ چل چل کے تھک ...

    مزید پڑھیے

    بس ترا انتظار رہتا ہے

    بس ترا انتظار رہتا ہے دل بڑا بے قرار رہتا ہے راحتیں کچھ تو بخش دے مجھ کو ان دنوں دل پہ بار رہتا ہے التجا ہے کہ اب عنایت ہو درد رگ رگ میں یار رہتا ہے وہ جو نظروں سے تم چلاتے ہو تیر وہ آر پار رہتا ہے سیفؔ کہتے ہو چین تم جس کو وہ تو دریا کے پار رہتا ہے

    مزید پڑھیے