صلیبیں

زمانے کی رفتار سے تنگ آ کر
صلیبیں اٹھائے سبھی چل رہے ہیں


غموں کی صلیبیں دکھوں کی صلیبیں
صلیبیں اٹھائے سبھی جی رہے ہیں
کہ زہر حقیقت سبھی پی رہے ہیں
مگر حیف صد حیف سارے جہاں میں
کوئی بھی کسی کا مسیحا نہیں ہے


زمانے کے حالات سے کیا لڑیں گے
دلوں پہ جفاؤں کے کوڑے پڑیں گے
نگاہوں سے نمناک موتی جھڑیں گے
زمانے کی رفتار سے تنگ آ کر
صلیبیں اٹھائے سبھی چل رہے ہیں


مگر ہم میں شوق شہادت نہیں ہے
نظام غلط سے بغاوت نہیں ہے
صداقت کا راہیؔ بہت دور ہوگا
نہ عیسیٰ ہے کوئی نہ منصور ہوگا
روایات کے زہر میں گھول کر یوں
لہو پینے والوں کی افراط ہوگی
مگر شخصیت کون سقراط ہوگی


غموں کی صلیبیں دکھوں کی صلیبیں
صلیبیں اٹھائے سبھی چل رہے ہیں