وصل کے بعد

درد دل سو بھی چکا ڈھل بھی چکا وصل کا چاند
انجم صبح کھلا ختم ہوا شب کا سفر
تیر کرنوں کے چلے زخم ہوئے پھر گہرے
لگ گئی لیلئ شب کو بھی ستاروں کی نظر


جل بجھے پیار کی خوش رنگ تمنا کے چراغ
پھر سلگنے لگا ہر سانس میں آہوں کا دھواں
پھر تصور کے جزیرے کی فضا ہے مغموم
پھر در و بام پہ چھایا ہے اداسی کا سماں


دھل گئی رات کے ماتھے کی دمکتی بندیا
تیلیاں نور کی خوابیدہ نگاہوں میں چبھیں
پھر رلے خاک میں شبنم کے لرزتے موتی
یوں بجھی شمعیں بہاروں کی کہ دیکھی نہ گئیں


فصل گل ہار گئی دور خزاں جیت گیا
آ گیا عہد ستم عہد وفا بیت گیا
دل گیا دل سے بجھی حسن شگفتہ کی نظر
خون ظلمات سے لبریز ہوا جام سحر