صحرا نورد کتنے اسی غم میں مر گئے

صحرا نورد کتنے اسی غم میں مر گئے
گر جائیں گے نظر سے اگر لوٹ کر گئے


وہ اتنے بے خبر ہیں کہ یہ بھی خبر نہیں
ہم امتحان عشق میں جاں سے گزر گئے


دیکھا ہے ہم نے یہ بھی تکلم کے ساتھ ساتھ
گیسو سنور گئے کبھی گیسو بکھر گئے


کیا کیا کرم ہیں گردش لیل و نہار کے
دیکھا جو ہم نے غور سے آئینہ ڈر گئے


ہے کارواں ہی باقی نہ اب گرد کارواں
مجھ سے بچھڑ کے سارے مرے ہم سفر گئے


خاموش ہوں نوشتۂ تقدیر جان کر
میں نے حسین خواب جو دیکھے بکھر گئے