نہ کوئی وجہ خوشی ہے نہ کوئی باعث غم

نہ کوئی وجہ خوشی ہے نہ کوئی باعث غم
جو تم نہیں ہو تو دل کا عجیب ہے عالم


نہ میکدے کی ضرورت رہی نہ ساقی کی
اب اپنے واسطے کافی ہے دیدۂ پر نم


مجھے نہ چھیڑ کہ میں ایسے اک مقام پہ ہوں
نظر اٹھاؤں تو رک جائے گردش عالم


ترے خیال میں اس وقت ڈوب جاتی ہوں
مزاج وقت کو پاتی ہوں جب کبھی برہم


ہمارے دل کو سمندر کی آرزو کیوں ہے
اگر حیات کا حاصل ہے قطرۂ شبنم