سفر میں راستہ جو پر خطر ملا تھا مجھے
سفر میں راستہ جو پر خطر ملا تھا مجھے
بہت ہی خوب تھا کیوں راہبر ملا تھا مجھے
جہاں میں جب کوئی جنس گراں شناس نہ تھا
تو اتنا بیش بہا کیوں گہر ملا تھا مجھے
پھر اس کے بعد مرا سر رہا نہ شانوں پر
دیار عشق میں وہ سنگ در ملا تھا مجھے
میں تا حیات فرشتوں کے پر کتر لیتا
جگر کا درد مگر مختصر ملا تھا مجھے
چمن میں یار شرر بار کی خدائی میں
شجر ملا تھا نہ کوئی ثمر ملا تھا مجھے
جو چاہتا اسے میں بھی تباہ کر دیتا
اسی کے قرب میں ایسا ہنر ملا تھا مجھے
سنا تھا سورۂ اخلاص میں نے آذر سے
صنم کدے میں خدا کا ہی گھر ملا تھا مجھے
ہے معجزہ کہ وہ سدرہ مقام تک پہنچا
جو ایک طائر بے بال و پر ملا تھا مجھے
یہ میری آبلہ پائی مجھے مبارک ہو
وہ دن یہی تھا کہ اذن سفر ملا تھا مجھے
کبھی بشیرؔ کو میں نے جنوں میں دیکھا تھا
عجیب صاحب فہم و نظر ملا تھا مجھے