سفرہے شرط...
بشارت حسین کا ریٹائرمنٹ پچھلے کئی ہفتوں سے موضوعِ بحث بناہواتھا وہ خود بھی کئی دنوں سے اپنی سبکدوشی کے بارے میں ہنس ہنس کر بڑے حوصلے کا اظہار کررہا تھا مگر اندر ہی اندر ایک اُداسی اور بوجھل پن کااحساس تھا ۔ اللہ اللہ کرکے وہ دن آہی گیا جب بشارت حسین اپنی تیس سالہ ملازمت کے بعد ریٹائر ہوگیا ۔ کل شام جب وہ دفتر سے الوداعیہ تقریب کے بعد گھرلوٹا تھاتو اُس نے بیوی بچوں کی دبی دبی مسکراہٹ کے پیچھے ایک اُداسی کی جھلک بھی دیکھی تھی اور گھر کے ماحول میں ایک عجیب سی سنجیدگی اور بوجھل پن کا احساس ہواتھا ۔ اُسے دہلیز پرقدم رکھتے ہوئے ایسا لگاتھا جیسے کوئی بڑی بازی ہارکر گھرلوٹا ہو۔ جبکہ وہ اپنی زندگی کی تمام ذمہ داریوں کوپوری طرح نبھاچکاتھا ۔ بی ۔ اے۔ کرنے کے بعد ہی اُس نے شاہینہ کی شادی کردی تھی اور اب وہ ماشاء اللہ دوبچوں کی ماں تھی، خوشحال تھی۔ اقبال کو ایم ۔ کام۔ کرتے ہی نوکری مل گئی تھی اور پچھلے سال اُس نے اقبال کی بھی شادی کردی تھی۔ ورثے میں ملے ہوئے مکان کو بھی اُس نے اپنی سہولت کے تحت بنوالیاتھا ۔ اُسے معقول پینشن ملنے والی تھی۔ مالی طور پر اُسے کبھی بھی پریشانی نہیں رہی تھی اِس لیے اب وہ گھروالوں کی تجویز سے متفق نہیں تھا۔ دونوں بچے اِس بات پراصرار کررہے تھے کہ پاپا پرائیویٹ ملازمت کے آفر کوقبول کرلیں اوراس کی بیوی زرینہ بضد تھی کہ وہ پی۔ سی۔ او۔ کے ساتھ فوٹو اسٹیٹ کاپی کی مشین لگالے ۔ اُس نے اپنی بات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تمام کاغذی کارروائیاں پوری کرادی تھیں ، باہری بیٹھک کے حصہ کودوکان میں منتقل کرادیاتھا۔ رنگ وروغن ہونا باقی تھا۔ آخر کار بچے بھی ماں کے ہمنوا ہوگئے تھے مگر بشارت حسین ملازمت کی قیدوبند سے رہاہوکراپنے آپ کو کسی جھمیلے میں ڈالنا نہیں چاہتا تھا بلکہ کھلی فضاؤں میں آزاد پنچھی کی طرح اُڑناچاہتا تھا ۔
وہ نگر پالیکا میں ہیڈکلرک تھا۔ یہ نوکری اُس نے معمولی کلرک سے شروع کی تھی اورزندگی کے تیس سال اُسی دفتر میں گذار دیئے تھے ۔ کئی بارتو اُس نے ترقی اس لیے قبول نہیں کی تھی کہ تبادلے کے تحت دوسری جگہ جانا پڑتا اورجس طرح وہ اپنے قصباتی مکان کو نہیں چھوڑنا چاہتاتھا اُسی طرح دفتر سے بھی تبادلہ اُسے منظور نہیں تھا ۔ تیس سال وہ پچیس کلومیٹر کا سفر صبح شام طے کرتارہاتھا ۔ اُسے اپنے چھوٹے سے کنبے کے ساتھ اُن ریلوں سے بھی پیار ہوگیا تھا جو اُسے گھر سے آفس تک پہنچاتی رہی تھیں ، جانے انجانے چہروں سے ملاتی رہی تھیں ۔
محض چھٹیوں کو چھوڑ کر دن میں دو مرتبہ تو اسے ٹرین کاسفر کرنا ہی پڑتا تھا صبح آفس جانے کے لیے اورشام کو گھر لوٹنے کے لیے۔ وہ سوچتا کہ ہرروز اُسے دومرتبہ تو جہنم کے عذاب سے گذرنا ہی ہے ۔اسی لیے اُس کے اندر سے نفاست کا احساس بھی ختم ہوچکاتھا۔ وہ تو خدا بھلاکرے زرینہ کا جواُسے ٹپ ٹاپ بنانے کا برابر جتن کرتی رہتی اور اُس کی لاپرواہی پر جھلّاتی رہتی اور بشارت حسین کا سابقہ تھا نت نئے مسافروں سے، کھچا کھچ بھرے ہوئے ڈبوں سے ، قمیض،دوپٹوں اورساڑیوں سے، ہاتھوں میں تھامے ہوئے اخباروں اور ناشتہ دانوں سے جوپسینہ پونچھنے کی جدوجہد میں کلبلاتے رہتے۔ پھبتیاں کستے، مسکراتے اورجمائیاں لیتے ہوئے لوگوں سے جو بڑی بے صبری سے اپنے اپنے اسٹیشن کی راہ تکتے رہتے یا پھر دودھ والوں کے بڑے بڑے بالٹوں سے جو بیٹھنے کی بنچوں کے درمیان کی جگہوں میں بھرے رہتے تھے۔ کبھی کبھار تو بھیڑ اِس حدتک ہوتی کہ سیٹ حاصل کرنا تودُور اندر داخل ہونا بھی مشکل ہوجاتا۔ اِس پرکسی کی چند یا کا پسینہ ، کسی کی داڑھی کی کھونٹیاں تو کسی کی گردن پر پاؤڈر کی چپکی تہوں سے اُس کا روز کا واسطہ تھا اور اس پرچُپ چاپ کھڑے رہنے پر بھی ایک دوسرے کی سانسیں اور پسینے کی بُو، ناک اورمنھ میں گُھس کر کراہیت پیداکرتی رہتی ۔ اس طرح شام کو جب وہ گھر واپس آتا تو خود بخود سارے جسم کی مالش ہوجایاکرتی ۔ اس کے باوجوواپسی کا سفر تھوڑا سکون بخش لگتا کیونکہ صبح کو عموماً گاڑی پکڑنے کے لیے بھاگنا پڑتا ، ڈبّے میں دھکے کھانے پڑتے پھراسٹیشن سے آفس تک پیدل چلنا پڑتا۔ اِس اُتھل پُتھل میں صبح کے غسل اورزرینہ کے ہاتھوں کپڑوں پر کی ہوئی پریس کا ستّیاناس ہوجاتا۔ اُس پر آفس میں مغزماری ۔ یوں توشام کو بھی گاڑی میں بھیڑ اوردھکّم پیل ہوتی مگر گھر جاکر اطمینان سے منھ ہاتھ دھونے ، آرام سے کھانا کھانے اورسکون سے سوجانے کے معمولات، تھکن اور گھٹن بھول جانے کے لیے کافی تھے ۔
لیکن اب یہ سب باتیں اُس کے لیے بیتے ہوئے کل کی ہونے والی تھیں ۔ اِسی لیے وہ رات میں کسی بحث وتکرار میں پڑنے کے بجائے گپ شپ کرتارہا اور کافی دیرسے یہ کہہ کرسویاتھا کہ اب اپنے دن اور اپنی راتیں ہوں گی اور کل آرام سے آٹھ ، نوبجے اُٹھوں گا لیکن وہ علی الصبح معمول سے پہلے ہی اُٹھ گیاتھا ۔ حقیقت تو یہ تھی کہ وہ رات کو بہت ہی کم سویاتھا ۔ زیادہ وقت اُس نے سوچنے ، دُور اسٹیشن سے گزرتی ہوئی گاڑیوں کی گڑگڑاہٹ اور انجنوں کی سیٹیوں کی آوازیں سنتے ہوئے گذارا تھا اور پھر ہلکا سااُجالاپھیلتے ہی وہ ٹہلتاہوا اسٹیشن آگیا۔ ویران پڑے پلیٹ فارم پر رفتہ رفتہ بہار آنے لگی ۔ جانے پہچانے لوگ اُس کے خیالات کے تانے بانے منتشر کرنے لگے ۔ اُس نے دیکھا کہ بالا مؤ پسنجر اسٹیشن میں داخل ہورہی تھی ۔ یہ اُس کی اپنی ٹرین تھی ۔ وہ اُس کے دوڑتے بھاگتے ڈبوں اور کبھی نہ تھکنے والے پہیوں کو دیکھتا رہا ۔ اُسے ایسا محسوس ہوا کہ ناشتہ دان لیے ہوئے وہ ڈبے میں داخل ہورہا ہے ۔ ٹرین چل رہی ہے اور وہ کھڑکی سے باہر جھانک رہا ہے کہ اچانک انجن کی سیٹی نے اسے جھنجھوڑدیا۔ چھُک چھُک کرتی ہوئی گاڑی روانہ ہوئی تو اُسے لگاکہ رواں دواں قافلہ جس میں وہ شامل تھا ، اُسے چھوڑ کر چل پڑا ہے ۔اُسے لگا جیسے اکیلا مسافر کارواں سے بچھڑ گیا ہو۔
وہ رخصت ہوتی ٹرین کے ہیولے کو دیرتک دیکھتا رہا ۔ دیکھتا رہا۔ پھر تھکے ماندے ہوئے جسم وذہن کے ساتھ گھر کی جانب چل دیا ۔ باہری بیٹھک کے اُس حصہ کو جو اب دوکان میں منتقل ہوچکا تھا ، غور سے دیکھا ۔ اُس کی بے رنگ وروغن دیواریں آفتاب کی شعاعوں سے جگمگارہی تھیں ۔ اُسے ایسا لگا جیسے یہ سنہری کرنیں امن وعافیت کی بشارت دے رہی ہوں، اُسے اپنی آغوش میں لے رہی ہوں یکایک اُس کے جسم میں ایک حرارت سی دوڑ گئی ۔ وہ مسکراتاہوا گھر میں داخل ہوا۔ زرینہ حیران وپریشان اُس کے سامنے کھڑی تھی ۔ آپ کہاں چلے گئے تھے؟ ناشتہ بھی ٹھنڈا ہوگیا ۔ چلئے آپ منھ ہاتھ دھولیجئے میں ناشتہ لے کر آتی ہوں۔ بشارت چُپ چاپ کھاتا رہا۔ زرینہ نے چائے پیالیوں میں انڈیلی اورریڈیوکی آواز کو ذرا ساتیز کیا۔ بیگم اختر ، خوا جہ حیدر علی آتش کی غزل گارہی تھیں
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتر ے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
’’آج کتنا اچھالگ رہا ہے !!!.... ہم دونوں اطمینان سے بیٹھے چائے پی رہے ہیں‘‘ ۔
’’ زرینہ سچ کہا تم نے‘‘۔ اُس نے پیاربھری نظروں سے زرینہ کو دیکھا ۔
’’آپ تو ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے پہلی بار دیکھ رہے ہوں‘‘ زرینہ نے شرماتے ہوئے کہا۔
’’تم آج بھی موسمِ بہار کی طرح خوبصورت ہو‘‘
وہ سوچنے لگا پھول سے چہرے پرخزاں کے آثار نمودار ہونے کے باوجود اُس کے خوبصورت نقش ونگار اُس کے عزم واعتماد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ وہ اپنی خوش نصیبی پر مسکرا دیا۔
’’کیوں مسکرا رہے ہیں‘‘؟ زرینہ نے اپنے ڈوپٹہ کو سنبھالتے ہوئے پوچھا۔
’’تمہاری رفاقت، محبت اور وفا شعاری کے لمحات کو سوچ رہا ہوں۔‘‘
’’جو آپ نے بویا ہے وہی کاٹا ہے‘‘۔ اس نے برجستہ جواب دیا۔
اس نے دل کی گہرائیوں سے قہقہہ لگایا اور زرینہ کے دائیں ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں سمیٹ کر کہا۔
’’ریٹائرمنٹ کو اپنی منزل سمجھ بیٹھا تھا جبکہ سفر کی شروعات تو اب ہوئی ہے۔‘‘
یہ سن کر زرینہ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلک پڑے جیسے وہ جیت گئی ہو۔