گھر جنّت

امتیاز کو یونیورسٹی میں لکچرارہوئے دوسال بیت گئے تھے ۔ ہوسٹل کاکمرہ چھوڑکر اس نے یونیورسٹی کیمپس سے ملحق آبادی والے علاقے میں ایک چھوٹا ساگھر کرائے پرلے لیاتھا ۔اسے مستقل تقرری کا پروانہ بھی مل چکا تھا۔ نوکری ملنے کے بعد ضرورت بیوی کی ہوتی ہے۔ جس کا اسے انتظار تھا۔ یونیورسٹی میں درس و تدریس کی مصروفیت میں اسے کبھی یہ یاد ہی نہ آتا تھا کہ وہ تنہا ہے۔ ہر وقت طلباء میں گھرا رہنا اس کے معمول میں شامل تھا۔استاد محنتی ہونے کے ساتھ اگر حسن اخلاق کا مالک ہو تو طلباء اس کو پلکوں پر بٹھاتے ہیں۔ پھر استاد کو فرصت کہاں؟ عدیم الفرصتی لذت آفریں نہ کہ گراں بار
’’میاں شادی کرلو، گھر بسالو، اب کس کا انتظار ہے؟‘‘ دوست احباب کا اصرار۔
مسلسل ہمدردی کا اظہار یا تواتر کے ساتھ مشورہ بھی طنز بن جاتا ہے۔ دوستوں کی بار بار رٹ نے اسے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اسے ایک عدد بیوی کی ضرورت ہے۔
’’بھئی کیسی لڑکی چاہیے؟‘‘
’’بس لڑکی گھریلو ہونی چاہیے‘‘ اس کا ایک ہی جواب۔
کبھی کبھی وہ اپنے آپ میں ڈوب جاتا۔ ایسی بیوی ہو جو پورے طور سے میرے گھر کو سنبھال لے، اسے صاف ستھرا رکھے، مجھے وقت پر ناشتہ کرائے کپڑے دھوئے، پریس کئے ہوئے کپڑے رکھے، بچوں کی پوری دیکھ بھال کرے اور جب میں یونیورسٹی سے لوٹوں تو کھانے پر میرا انتظار کرے....... غرض کہ گھر جنّت کی طرح نظر آئے گا۔ چہار دیواری میں سکون ہوگا۔ اس وقت زندگی بڑی حسین ہوگی.......وہ زیر لب مسکرانے لگتا۔
’’تم جیتے ہو اکیسویں صدی میں اور سوچ انیسویں صدی کی رکھتے ہو‘‘۔
’’بیوی گھر کی رانی ہے، اور مرد باہر کا راجہ‘‘ یہ کہہ کر امتیاز خاموش ہوجاتا۔
امتیاز کو اس شہر میں آئے اور یونیورسٹی جوائن کیے تیرہ سال ہوگئے تھے ۔ خوش وخرم رہنے کے باوجود اس کی زندگی عجیب بے کیف سی ہوکر رہ گئی تھی۔ زندگی کاالمیہ یہ ہے کہ بڑی سے بڑی آرزو بڑی سے بڑی کامیابی نگاہ میں ہیچ نظر آتی ہے ۔ اکیلا سوناگھر ۔ صبح سے شام تک کاوہی بندھا ہوا روٹین ۔ خود ناشتہ تیار کرنا اور یونیورسٹی چلے جانا ۔ لکچردینا ۔ بولتے بولتے گلا خشک ہوجاتا ۔ وہ اکثر دوپہر کا کھانا گول کرجاتا ۔ لوٹ کر آتا توتین بج رہے ہوتے ۔ چائے اورسینڈوچ بناکر وہ ٹرے لے کر ٹیرس پر بیٹھ جاتا۔ دُور سامنے کُھلامیدان تھا۔ اوبڑ کھابڑزمین جہاں پہلے کبھی اینٹوں کا بھٹا تھا۔ برسات میں چاروں طرف ہرا بھرا نظر آتا۔ مختلف چرندوپرند کے علاوہ قرب وجوار کی آبادی کے بچے بھی یہاں اُدھم مچایاکرتے ۔ پتنگ اڑاتے ۔ کرکٹ یاگلی ڈنڈا کھیلتے اور آپس میں لڑتے جھگڑتے ۔ ان بچوں کی مائیں کوٹھیوں میں کام کرتیں اورباپ عموماً رکشہ چلاتے، پڑھائی لکھائی سے ان کا دُورتک کوئی واسطہ نہیں تھا ۔ امتیاز یہ سب دیکھتا اور پھر خیالوں کے جنگلات سے گزرتا اپنے گاؤں پہنچ جاتا۔جہاں اس نے اپنا بچپن بھی اسی طرح کھیلتے کودتے گزاراتھا ۔ ماں اوربڑی بہنیں دن بھر محنت ومشقت میں لگی رہتیں اور وہ بچوں کے ساتھ کھیلتا رہتا ۔ صرف کھانے کے وقت گھرمیں گھستا اور پھر غائب ہوجاتا ۔ گیارہ سال کی عمر میں اس کے والد نے پڑوس کے گاؤں میں اسے پڑھنے بٹھادیا تھا ۔ شروع میں اس نے بہت اُدھم مچایا لیکن پھردل جمعی سے جانے لگا ۔ گاؤں سے ہائی اسکول کرنے کے بعد وہ شہر آگیا اور پھراس نے پلٹ کر نہیں دیکھا ۔ کامیابی کی منزلیں طے کرتے ہوئے وہ اس مقام پر پہنچ چکاتھا۔ البتہ اس کے تصور میں اب بھی ماں بہنوں کی وہی تصویر تھی ، گھرکاکام کرتی ، کھاناپکاتی ، کپڑے دھوتی وغیرہ وغیرہ ۔ وہ سوچتا عورت گھر کے اندر رہنے کے لیے بنی ہے ؟
شہرآنے کے بعد اس نے عورت کا ایک اورروپ بھی دیکھا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہے ، موپیڈ،اسکوٹر چلارہی ہے ۔ یونیورسٹی میں اس کی کئی ہم جماعت لڑکیاں تھیں اور اساتذہ میں لیڈی ٹیچر س بھی جن کے رکھ رکھاؤ سے وہ متاثر بھی تھا مگر نہ جانے کیوں اس کے ذہن میں یہ بات اندر کہیں بیٹھی تھی کہ عورت کی جگہ صرف اور صرف گھر ہے ۔ اپنی اس بات پرو ہ نہ چاہنے کے باوجود بھی مضبوطی سے قائم تھا ۔ دوست مختلف تاویلیں اوردلائل پیش کرتے مگروہ قائل نہیں ہوتا ۔ اس کی اپنی منطق تھی ۔ کہتا گھر کی اپنی کچھ ذمہ داریاں ہیں ۔ میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا منکر نہیں ہوں بلکہ یہ جانتاہوں کہ تعلیم ذہن اورفکر کی تربیت میں ایک معاون کردار اداکرتی ہے ، تہذیب اورثقافت کو آگے بڑھانے کا کام انجام دیتی ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس کے ذریعے سماج میں اپنے اوردوسروں کے لیے بہتر زندگی کی تلاش کاراستہ اختیار کرلے ۔ اورآخر کار اس نے وہی کیا، والدین کی مرضی سے اپنے گاؤں کی ایک معمولی پڑھی لکھی لڑکی سے شادی کرلی ۔
جیسی زندگی وہ چاہتا تھا ویسی ہی زندگی اس کو مل گئی تھی۔ ایک خوبصورت عورت کو پالینا یہ قسمت اور خوب سیرت عورت کوپالینا کمالِ قسمت ہے۔ نازش شریف النفس ہونے کے ساتھ ساتھ وفا دار اور تابعدار عورت تھی۔ امتیاز کے آنکھوں کے اشارے پر چلنے والی گڑیا تھی۔ گھر کو صارف ستھرا رکھنا، اول وقت میں اٹھنا، پسند کا ناشتہ بنانا، کپڑے دھونا، پریس کرنا، ڈپارٹمنٹ جانے کے بعد دوپہر کے لیے لذیذ کھانے بنانا۔ اس پر اس کی پسند نا پسند کا دھیان رکھنا۔ کھانے پر سلیقہ شعار عورت کی طرح اس کا انتظار کرنا چکھنے کی غرض سے ایک لقمہ بھی منہ میں نہ رکھنا آخر کار شوہر بھوکا پیاسا کمانے کے لیے جائے اور ہم عورتیں اس کی غیر موجودگی میں کھانا کھائیں یہ تو غیر اخلاقی، اور غیر انسانی فعل ہوا۔ جنت زبانی جمع خرچ کا نام نہیں۔ امتیاز کھلی آنکھ سے جنت دیکھ رہا تھا۔
دن گزرتے گئے، دن اور رات گزرنے سے کون روک سکتا ہے؟ زندگی گھر اور یونیورسٹی کے درمیان دوڑ رہی تھی۔ بیٹا احمرؔ اپر کے جی پاس کرکے کلاس فرسٹ میں آگیا تھا........
ایک دن وہ یونیورسٹی کلب جانے کے لیے تیار ہوکر گھر سے نکلنے کے لیے گیٹ کو عبورکررہا تھا....
’’پاپا رُکیے، میرا ہوم ورک کمپلیٹ کرادیجئے۔‘‘
’’بیٹے اپنی ممی سے.........‘‘ اس سے پہلے کہ وہ اپنا جملہ پورا کرتا کہ اچانک اس کی زبان گنگ ہو گئی اور منہ پر چپّی لگتے ہی اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔