بڑھتے قدم
جاوید کے بلند حوصلوں کے سہارے فاخرہؔ نے چاند کو چھولینے کی تمنّا کی تھی مگر اس کی تمنّاؤں کا محل یکایک چکنار ہوگیاتھا۔ اُس نے جن مضبوط بانہوں کے دائرے میں سپنوں کو حقیقت میں بدلنے کا عزم کیاتھا، وہ سہارا بچھڑ چکاتھا۔ عزیز و اقارب جاوید کی لاش کو گھرسے باہر لے جاچکے تھے۔ دور سامنے چوراہے پر اُس کا جنازہ رکھاتھا۔ لوگ نمازیوں کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ مسجد سے آئیں تاکہ جاوید کے جنازے کی نماز پڑھائی جاسکے ۔
خواتین آہ و بکا کرتے ہوئے تھک چکی تھیں لیکن فاخرہؔ دروازے کے پٹ کو پکڑے ایک ٹک جنازہ کو تک رہی تھی پھر بھی اُس کو خبر نہ ہو سکی کہ کب صف بندی ہوئی؟ کب نماز ادا کی گئی؟ اور کب لوگ قبرستان کے لیے رخصت ہوئے؟ فاخرہؔ کو تو اس وقت ہوش آیا جب اس کی خلیہ ساس نجمہ بیگم نے اس کو کاندھے سے پکڑ کر دالان میں دونوں بچیوں کے پاس لاکر بٹھایا جو غم اور بھوک سے نڈھال تھیں۔
پُرسے میں آئے ہوئے لوگ ایک ایک کر کے رُخصت ہوگئے ۔ بچیوں نے اسکول جانا شروع کردیا۔ بینک کا اسٹاف جن کے ساتھ جاوید نے نو سال گزارے تھے،فاخرہؔ سے دلی ہمدردی کے ساتھ ہر ممکن تعاون کے لئے تیار تھا۔ جاویدؔ اپنے اسٹاف میں ہر دل عزیز تھا۔ اُسے کام کرنے کی دُھن تھی۔ اکثر دوسروں کا کام بھی نپٹادیتا۔ سب کے دُکھ سُکھ میں شریک رہتا۔فاخرہؔ بھی اس کے اسٹاف والوں کا خیال رکھتی۔سبھی کو اپنے خاندان کا فرد تسلیم کرتی۔ اسی لئے جاوید کے سبھی ساتھی اس کو بھابھی جی کے لقب سے عزت دیتے۔ اور اب تو اسٹاف کا معمول ہوگیاتھا۔کہ وہ ہر شام اپنی بھابھی جی کی خیریت دریافت کرنے آتا۔ ان کی کوششوں سے فاخرہؔ کو بیمہ کمپنی کی جانب سے ایک لاکھ روپے کا چیک مل گیاتھا۔ بینک منیجر دیویندر سریواستوا فاخرہؔ کو ملازمت کے لئے سمجھاتے کہ ان کی موجودگی میں وہ بینک آنا شروع کردے اور پرائیویٹ طور پر ہائی اسکول کا امتحان پاس کر لے مگر خاندان کے افراد نہ صرف اِس بات کے مخالف تھے بلکہ انھوں نے فاخرہؔ کو گدھ کی طرح نوچنا شروع کردیاتھا۔ جاوید کے دونوں بڑے بھائی اس رقم کو اپنی تحویل میں لینا چاہتے تھے اور فاخرہؔ کی تمام ذمہ داریوں کو قبول کرنے کا دعویٰ کرتے تھے۔ خاندان کی کچھ عورتوں نے نکاحِ ثانی کا بھی مشورہ دیا۔ فاخرہؔ گُم صُم تھی جیسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہو۔ اُس کی نظروں کے سامنے گزرا ہوا وقت گردش کرتارہتا اور ہر پَل اُسے یہ احساس ہوتا کہ شاید جاوید آنے والاہے ۔
جاوید کو پڑھنے کا شوق تھا جبکہ گھرکا ماحول اس کے برعکس تھا،بی۔کام کرنے کے بعد اُس نے گھروالوں سے ہوسٹل میں رہ کر تعلیم جاری رکھنے کی اجازت طلب کی تو اُن لوگوں نے اُسے تجارت میں ہاتھ بٹانے کو کہا۔ جاوید کو اس پیشے سے کوئی رغبت نہ تھی ۔ وہ ایم۔کام کرنے میں جُٹ گیا۔ ایم۔کام کے بعد والدین نے اُس پر ’’انکُش‘‘ لگانے کے لئے چٹ منگنی پٹ بیاہ کردیا۔ فاخرہؔ قبول صورت، نیک سیرت اور آٹھواں پاس تھی۔
اس کے گھر کا ماحول بھی رسم و رواج کا سخت پابند تھا۔ بڑی بوڑھیوں کی اونچ نیچ کی وجہ سے اس کا تعلیمی سلسلہ رُک گیا۔ البتہ گھر میں رسالے اور ناول آتے رہتے۔ آگے پڑھنے کے لئے وہ ماں سے کہتی تو جھٹ دادی بول اُٹھتیں ’’لڑکی زیادہ پڑھی ہو تو اچھا اور خاندانی لڑکا نہیں ملتا‘‘۔فاخرہؔ کی قسمت کہ جاوید اس کا شریکِ سفر بنا۔
ایک سال بعد فاخرہؔ کی گود میں چاند سی بیٹی فرحؔ آگئی ۔ اسی بیچ جاوید کی بھاگ دوڑ رنگ لائی اور اُسے بینک میں ملازمت مل گئی ۔ کچھ دنوں بعد جاوید نے کرائے کا مکان لے لیا۔تین سال بعد دوسری بیٹی فریدہ پیدا ہوئی لیکن فاخرہ کی صحت خراب رہنے لگی اور چاہنے کے باوجود وہ تعلیم کا سلسلہ شروع نہ کرسکی ۔
جاویدنے فرحؔ اور پھر فریدہؔ کو شہر کے سب سے اچھے انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرادیا۔ فاخرہؔ کی ساری توجہ بچّیوں کی تعلیم و تربیت کی طرف منتقل ہوگئی ۔ فرحؔ ساتویں میں اور فریدہ چوتھی کلاس میں تھی کہ اُس کے حسین خواب بکھر گئے ۔ بینک سے واپس آتے وقت جاوید ایک حادثہ کا شکار ہوگیا۔
فاخرہؔ عجیب کشمکش میں مبتلا تھی۔ پردہ اُس نے بہت پہلے ترک کردیاتھا جس پر بڑا وا ویلا مچاتھا پھر لڑکیوں کو انگلش اسکول میں داخل کرانے پر بھی سب نے شور مچایاتھا لیکن جاوید کے آگے کسی کی ایک نہ چلی تھی۔ وہ اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے اور اُنھیں مقابلہ کے امتحان میں شرکت کے خواب دیکھا کرتاتھا۔فاخرہؔ اپنے شوہر کے خوابوں کی تعبیر چاہتی تھی لیکن بڑھتے ہوئے قدموں کو سماجی بندھنوں کے خوف سے واپس لے لیتی کہ زمانہ کیا کہے گا؟ بالآخر اُس نے بینک جانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔اسٹاف نے اُس کا پُرجوش خیر مقدم کیا۔ رشتے داروں نے لعن طعن شروع کی۔ دیویندر جی نے بہت ہی معمولی کام اُس کے سپرد کیا کہ وہ ڈرافٹس جمع کرکے اجے نگم کی میز پر پہنچادے اور پھر وہاں سے کاؤنٹر نمبر تین پر سکسینہ صاحب کے سپردکردے۔ خالی اوقات میں کام کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اِس کام میں بھی چپراسی پہل کرتا اور فاخرہؔ کو بس بھابھی جی کہہ کر دانت دکھادیتا۔ دیویندر جی نے فاخرہ کا فارم بھروادیا تاکہ وہ ہائی اسکول کا امتحان دے سکے اور پھر سبھی کی کوششوں سے اس کے پاس کتابوں اور نوٹس کے انبار لگ گئے ۔ فاخرہؔ نے ہائی اسکول کا امتحان پاس کر لیا اور دو سال بعد انٹر میڈیٹ بھی سیکنڈ ڈویژن میں پاس کر لیا۔ تبادلے سے پہلے دیویندر جی نے فاخرہ کو کلرک کی حیثیت سے کام سونپ دیا۔
دیویندر جی کے جانے کے بعد اُسے محسوس ہوا کہ اس کا سرپرست، بہی خواہ چلاگیا جو ہر پل اس کی رہنمائی کرتارہتاتھا۔ خط و کتابت کا سلسلہ بر قرار رہا اور جب فاخرہ نے بی۔اے۔ کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا تو وہ اُسے گورکھپور سے مبارکباد دینے آئے ۔دیویندر سریواستو یہ دیکھ کر اور بھی خوش ہوئے کہ فرحؔ اور فریدہؔ ذہانت میں والدین سے کئی قدم آگے ہیں ۔
وقت کی رفتار کے ساتھ جاوید کا یہ چھوٹا سا گھرانہ ترقی کی منزلوں کو طے کرتارہا۔ اور آج فاخرہؔ کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ سارا گھر روشنی سے جگمگارہاتھا۔شہرکے باعزت لوگ آچکے تھے۔ پورا ہال مہمانوں سے بھراتھا۔ مگر وہ باہر گیلری سے گیٹ تک بے چینی سے ٹہل رہی تھی۔ بار بار اُس کی نظر گھڑی پر جاتی۔ اُس نے مُڑ کر فرحؔ کو آواز دینی چاہی جو برآمدے میں اپنی کسی سہیلی سے بات کر رہی تھی لیکن کچھ سوچ کر لمبے لمبے قدم رکھتی خواب گاہ میں داخل ہوئی اور جیسے ہی اُس نے ٹیلیفون کا ریسیور اُٹھاکر نمبر گھمانے شروع کیے کہ فریدہ دوڑتی ہوئی آئی اور ایک ہی سانس میں کہہ گئی۔
’’ممّی جلد چلیے ! ’’دیویندر انکل آگئے ہیں ‘‘
فاخرہؔ جھٹ ریسیور رکھ کر باہر آئی اور ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے دیویندر سریواستو کو دیکھ کر شکایت بھرے لہجے میں کہا:
’’بہت دیر کردی بھائی صاحب !کب سے ہم لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں ‘‘
دیویندر جی جواب ڈویژنل منیجر ہیں ، وہ ٹرین کی تاخیر اور سفر کی دشواریوں کے سلسلے میں بتانے لگے۔ اُنھوں نے فرحؔ کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کی بے مثال کامیابی پر مبارکباد دی اور کہا ۔
’’بیٹی یادرکھنا تمہارے آئی۔اے۔ایس۔ میں کامیاب ہونے کاسہرا تمہاری ماں کے سر جاتاہے جس کی انتھک کوششوں سے تم اس مقام تک پہنچ سکی ہو۔ تم ٹریننگ پر جانے والی ہو مجھے یقین ہے تم اس میں بھی سو فیصد کامیاب رہوگی کیونکہ تمہارے سامنے تمہاری ماں ایک مثالی عورت ہے جس کے بڑھتے قدموں کا ہمیشہ منزلوں نے استقبال کیا ہے ‘‘۔