نیا راستہ

اس نے مُثنّیٰ(Duplicate) چابی سے فلیٹ کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گئی۔ دروازہ بند کیا اور تھوڑی دیر اُس سے پیٹھ لگا کر کھڑی رہی۔چاروں طرف گہرا اندھیرا تھا۔ اندر اور باہر کی تاریکی نے مل کر اُسے پریشان کر دیا۔ وہ اس تاریکی سے باہر آنے کے لیے چھٹپٹانے لگی۔ اُس نے ہاتھ بڑھا کر بجلی کا بٹن دبایا، کمرہ روشن ہو گیا۔ لیکن وہ اپنے اندر کے اندھیروں کا کیا کرے ؟
وقت کی تیز رفتاری کا مقابلہ کرنا کچھ آسان کام نہیں۔ کبھی کبھی تو اس کے ساتھ باقاعدہ دوڑ لگانی پڑتی ہے۔ مونا بھی پچھلے بیس سالوں سے صرف بھاگ رہی تھی۔ گھر کی ذمہ داریوں، شوہر کی خدمت گزاریوں اور بچوں کی تعلیم و تربیت میں اُس کا اپنا وجود کہاں کھو گیا اور وہ کب اپنے آپ سے دور چلی گئی اُسے پتا ہی نہ چلا۔ وہ اور گھر کب ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے اُسے احساس ہی نہ ہو سکا۔ پھر بھی وہ خوش تھی۔ اُس کی دنیا اُس کا گھر تھا جو اُس کے لیے جنت سے کم نہ تھا۔
سامنے رکھے جگ سے اُس نے گلاس میں پانی اُنڈیلا اور ہونٹوں سے لگا لیا۔ یہ کیسی آگ تھی جو اُس کے اندر پچھلے پانچ سالوں سے سُلگ رہی تھی اور جس نے اُس کے پورے وجود کو اپنی آغوش میں لے رکھا تھا۔ وہ جل رہی تھی شمع کی مانند جس کے مقدر میں جلنا ہی لکھا ہوتا ہے۔ مگر اب اور نہیں........ وہ اب اور جلنا نہیں چاہتی۔ اُس کے بیٹے اپنے تابناک مستقبل کی تلاش میں ملک کے باہر جا چکے ہیں اور آج بیٹی بھی اپنے شوہر کے ساتھ بیرون ملک چلی گئی۔ وہ اُسے ایئر پورٹ چھوڑ کر ہی گھر میں داخل ہوئی تھی۔
مونا نے اپنے تمام غم سب سے چھپا کر اپنے اندر رکھ چھوڑے تھے۔ وہ سب کچھ برداشت کر سکتی تھی مگر دانش کی بے وفائی نہیں۔ اُف کیا عورت اتنی آسانی سے ہرلی جاتی ہے؟ کیا کمی تھی اُس میں؟ پھر دانش نے اُس کے ساتھ ایسا کیوں کیا۔ اُسے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب اُس کی بیٹی نے اسکول سے آتے ہی کہا تھا۔ آج میری دوست کی سالگرہ ہے شام کو پارٹی میں جانے کے لیے مجھے گفٹ خریدنا ہے۔ وہ بے دِلی سے اُس کے ساتھ بازار چلی گئی۔ خریداری پوری ہونے پر بیٹی نے فرمائش کی۔ ممّی الچکو میں کافی پی جائے۔یہ اے۔ سی۔ ریستوراں ابھی نیا کھلا تھا اور ہر کسی کی زبان پر اسی کا نام تھا۔ وہ مان گئی۔ ریستوراں کے اندر کافی بھیڑ تھی۔ تقریباً سبھی میزیں بھری ہوئی تھیں۔ وہ جگہ کی تلاش میں نظریں دوڑانے لگی۔ ایک کونے میں جاکر اُس کی نظر ٹھہر گئی۔ پہلے تو وہ اُسے کوئی خواب سمجھی، نظر کا دھوکا بھی ہو سکتا ہے۔ مگر یہ تو سچ تھا جیتا جاگتا سچ۔ سامنے دانش کسی لڑکی کے ساتھ بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ یہ کیسا لمحہ تھا جس کے متعلق اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ اس سے پہلے کہ بیٹی کی نظر اُدھر جاتی، اُس کا ہاتھ پکڑ وہ باہر کی طرف مُڑ گئی۔ بیٹی کی کیوں کا اُس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
خیالوں میں بسی شخصیت کی بلند عمارت ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگی، جس کے دھماکوں کی آواز مونا کو اپنے کانوں میں صاف سنائی دے رہی تھی۔ دانش کے پاس تو اپنے بچوں کے لیے بھی وقت نہیں تھا۔ بیٹا میں بہت مصروف ہوں، اپنی ممّی سے کہو، اپنی ممّی کے ساتھ جاؤ، ممی تمہاری مدد کریں گی، ممی ہیں نا، جیسے جملوں سے بچوں کو بہلاتا ہوا وہ آفس کے لیے نکل جاتا۔ وہی دانش آفس کے وقت میں یہاں۔ وہ کچھ سمجھ نہ سکی۔ رات کو دانش سے اُس نے پوچھا آج میں نے تین اور چار بجے کے درمیان آپ کو آفس فون کیا تھا۔ آپ کہاں تھے؟ ایک ارجنٹ میٹنگ تھی۔ اُس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔ وہ اُس کے چہرے کو تھوڑی دیر دیکھتی رہی، کچھ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی یا شاید پہچاننے کی۔ پھر اپنے کام میں لگ گئی۔
دھیرے دھیرے یہ میٹنگیں آفس کے وقت کے بعد بھی ہونے لگیں اورUrgent Tourشہر کے باہر بھی جانے لگے۔ وہ چُپ چاپ سب دیکھتی رہی۔ ہمدردوں نے اسے ہر بات سے مطلع کیا۔ کچھ نے اشاروں کنایوں میں کچھ نے فون کے ذریعے، اور کچھ نے ثبوت بھی مُہیّا کرائے۔ وہ پھر بھی خاموش رہی۔ سب کچھ خاموشی سے سہتی رہی۔ اُسے اپنے اندر کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا۔ اُسے لگتا جیسے اُس کے اندر ایک لُٹے گھر کا شور برپا ہو، یا جیسے اُس کے اندر کوئی قتل ہو گیا ہو۔ اُس کی حالت اُس زخمی پرندے کی سی تھی جو بہت اونچائی سے پانی میں گرا ہو اور جس نے کئی سرخ نقوش پانی میں بنا دیے ہوں۔ مگر بظاہر وہ بالکل خاموش تھی۔ ایک طرح کی بے حسی کا لبادہ اُس نے اپنے اُوپر اوڑھ رکھا تھا۔ اُس کی نظر اپنے بچوں کے مستقبل پر تھی جو اپنی تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے اس کہانی سے ناواقف تھے اور وہ خود بھی نہیں چاہتی تھی کہ اُنھیں کسی بات کا پتہ چلے اور یوں پانچ سال گزر گئے۔
ان پانچ سالوں میں وہ ایک اجنبی کی طرح اُسی گھر میں رہتی اور پل پل ٹھکرائی ہوئی زندگی جیتی مرتی رہی۔ دانش یہ سمجھتا رہا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ وہ گھر کے باہر ایک رشتہ بہت خوبی سے جی رہا ہے اور اُس کا گھر بھی پُر سکون ہے جیسے اُس کی بیوی کو اُس سے کوئی شکایت ہی نہیں ہے۔ وہ اگر خاموش تھی تو صرف اپنے آنکھ کے تاروں کے لیے اور طوفان تھا تو اس کی خاموشی کے پیچھے!
مونا وقت کے ساتھ دوڑتی آئی تھی جس نے وقت کو اپنی مُٹھی میں بند کر رکھا تھا اب اُس کی مُٹھی سے سوکھی ریت کی مانند پھسلتا جا رہا تھا۔ وقت کتنا ظالم اور جابر ہوتا ہے اس کا اندازہ اُسے پچھلے پانچ سالوں میں ہو گیا تھا۔ مگر وہ یہ ماننے کو ہر گزتیار نہیں تھی کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہے اور غم گسار بھی کیوں کہ اُس کا غم تو آج بھی ہرا ہے۔
اُس نے میز کے نیچے سے قلم اُٹھایا اور پچھلے پانچ سالوں سے دبائے اپنے طوفان کو کاغذ میں منتقل کر دیا اور یہ عزم بھی کہ وہ اُس کی دنیا سے جا رہی ہے۔ خط پورا کرنے کے بعد وہ اُٹھی، ایک نظر پورے گھر پر ڈالی۔ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو اب اُس کا راستہ روک سکے۔ نہ محبت نہ لگاوٹ، نہ جذبات نہ احساسات اور نہ اشیاء۔ جہاں محبت دم توڑ دیتی ہے وہاں اشیاء اپنا وجود خود بخود کھو دیتی ہیں۔ وہ فلیٹ کے باہر آگئی۔ دروازہ لاک کیا اور چابی دروازے کے نیچے سے اندر کھسکا دی۔ بیگ کاندھے پر لٹکایا اور باہر نکل آئی۔ سامنے نئی منزل اُس کی منتظر تھی۔