رام دین

وصیت کے مطابق زنگ آلود صندوق کوٹھری کے باہر لایا جاچکاتھا ۔ ستّار تالا کھولنے کے لئے موجود تھا ۔ پُتّن ٹیلر کفن لا چکے تھے ۔کاٹھی باندھنے والا بھی موجود تھا۔ مردہ جسم پر کئی لوٹے پانی ڈالا گیا، اور اسے جہاز پر چت ڈال کر باندھ دیا گیا۔ مجمع حیرت واستعجاب میں ڈوبا ہواتھا ۔ سبھی کے چہروں پر اُداسی چھائی ہوئی تھی جیسے کوئی ان کا اپنا قریبی عزیز رُخصت ہوگیا ہو۔
یہ خبر رات ہی شہر میں پھیل گئی تھی کہ رام دین جو تین دنوں سے بیمارچل رہے تھے ، گذرگئے ۔ بلاتفریق مذہب وملت ، چھوٹے بڑے جس نے سنا افسوس کیا ۔ محنت کش لوگ جو علی الصباح فیکٹریوں یادوسری جگہوں پرکام کرنے جایا کرتے تھے انہوں نے جانے کا ارادہ ترک کردیا اور پوپھٹتے ہی اُن کے گھر کے ارد گرد لوگ جمع ہونے لگے۔ بس رام دین کا ذکرِ خیر، ان کی خوبیاں شمار ہونے لگیں۔ مرنے میں ایک ہی فائدہ ہے سانس نکلتے ہی شیطان صفت بھی فرشتہ بن جاتا ہے۔ یوں تو رام دین تھے بہت سی خوبیوں کے مالک۔ دورانِ زندگی، ان کا کسی نے رشتہ دار دیکھا نہ ہی اُن کی زبانی متعلقین کا ذکر آیا۔ پھربھی ان کی سب سے رشتہ داری تھی ، ہر کوئی انہیں اپنا سمجھتاتھا ۔ ہولی ہو یا عید ، شبِ برأت ہو یادیوالی ، کرسمس ہو یا گرونانک جینتی ۔رام دین بڑے تزک واحتشام سے تیوہاروں کی رنگ رلیوں میں شریک ہوتے اور باقاعدگی سے اس کا اہتمام کرتے ۔ ان کی شخصیت میں بلاکی کشش تھی ۔ وہ کبھی مرعوب ہوتے نظر نہیں آتے ۔ ان کی صاف گوئی صاحب اقتدار لوگوں کو ناگوار گزرتی ۔ وہ کسی پر ظلم ہوتے دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتے تھے ۔ ہرایک کے آڑے وقت میں کام آتے۔ ان کا معمول تھا کہ صبح اُٹھ کر ہراس گھر پر دستک دیتے جہاں کوئی بیمار ہوتا ، عیادت کرتے اور کسی بھی ضرورت کے لئے اپنی خدمات پیش کرتے ۔
رام دین کے بارے میں روایت مشہور تھی کہ تقسیم ہند کے وقت جب ہر طرف افراتفری اور قتل وغارت گری مچی ہوئی تھی تو وہ ایک تانگہ میں سوار ، نڈھال، گرد وغبار سے اٹی ہوئی اچکن پہنے ، ایک بھاری بھرکم صندوق کے ساتھ ہمارے چھوٹے سے شہرمیں وارد ہوئے تھے ۔ اکیلی ذات ، مسجد سے ملحق ایک بڑا کمرہ خالی تھا، اسے کرائے پر لے لیا اور رہنے لگے ۔ کچھ دنوں بعد بازار کی جانب مسجد کی دوکانیں تعمیر ہوئیں تو رام دین نے اپنے کمرے سے ملی ہوئی دوکان بھی کرائے پرلے لی اوردرمیانی حصہ کی دیوار توڑواکر اس میں ایک دروازہ لگوالیا جس سے براہ راست کمرے کا دوکان سے تعلق ہوگیا۔ سامنے بہت بڑا میدان تھا جس میں ہفتہ میں دوبار بازار لگتے تھے ۔ میدان کے دوسری جانب قطار سے نگر پالیکا کی دوکانیں تھیں جن میں زیادہ تر روز مرہ کی چیزیں میسرتھیں۔ ایک کھانے کااور کچھ چائے کے ہوٹل تھے۔آخری سرے پر لکڑیوں کی گمٹی میں پان بیٹری سگریٹ وغیرہ کا سامان فروخت ہوتا تھا ۔ بازار کے اوقات میں تل دھرنے کو جگہ نہیں رہتی تھی سائیکل سے آنے والے بیشتر حضرات اپنی سائیکلیں رام دین کے کمرے کے سامنے کھڑی کرتے تھے اور وہ دوکانداری سے زیادہ توجہ سا ئیکلوں کی رکھوالی پر صرف کرتے تھے ۔رام دین کی دوکان میں ضروریاتِ زندگی کی بہت سی چیزیں ملتی تھیں ۔ وہ مناسب قیمت پرسامان فروخت کرتے ۔ بچوں کو تحفتاً بسکٹ ، ٹافی ، غبارے وغیرہ دیتے ۔ حاجت مندوں کی حاجت روائی کرتے اور الگ ڈبے میں ریزگاری جمع رکھتے جو فقیروں کے لئے ہوتی ۔ کیامجال کوئی صدا لگاکر اُن کے در سے خالی ہاتھ چلاجائے ۔رام دین کو خوشبوؤں کا بڑا شوق تھا ۔ معمولی مگر صاف ستھرالباس پہنتے ۔ دوکان کھولتے ہی اگر بتیاں جلاتے ۔ جمعرات کو پابندی سے لوبان کی دھونی دیتے ۔ کئی کئی بیلے کے ہار خریدتے ۔ اُن کی دوکان داری خوب چلتی لیکن سیمابی طبیعت ہونے کی وجہ سے دوکان پابندی سے نہ کُھل پاتی ۔ گھر گھرکی خبرگیری کرنا، اُن کا شغلِ مخصوص تھا۔ ظاہر ہے قرب وجوار میں کسی کے یہاں شادی بیاہ ہو یا کوئی اور تقریب رام دین بہت پہلے وہاں پہنچ جاتے۔ مفید مشوروں سے نوازتے خصوصاً لڑکی کی شادی میں وہ پوری دیکھ ریکھ اپنے سر اوڑھ لیتے ۔ اور ادنیٰ سے ادنیٰ کام سرانجام دینے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھتے، مثلاً قناتیں وشامیانے لگوانا ، کرسی ، میز ، دری ، چادر بچھوانا، کھانے کے لئے چولہے بنوانا، تندور گڑوانا اور پھر بارات کی واپسی کے بعد افسردگی کے عالم میں بکھرے ہوئے سامان کو سمیٹنا ، پُرنم آنکھوں کو خشک کرتے رہنا جیسے خود ان کی بیٹی رخصت ہوئی ہو۔
گذشتہ رات رام دین سب کو بلکتا ہوا چھوڑ کر خود رخصت ہوگئے ۔ ا ن کے بے جان جسم کوکاٹھی میں کس کر میدان میں لایا جاچکاتھا ۔لوگ دعا ئے مغفرت کررہے تھے ۔ فادر جوزف اور گُرمیت سنگھ تشریف لے آئے تھے ۔ مہیشوری دیوی کے پُجاری پنڈت داتا پرساد کا انتظار ہورہاتھا جونجی کام سے پڑوس کے گاؤں گئے ہوئے تھے ۔ امام صاحب بھی پنڈت جی کے منتظر تھے کہ لوگوں نے بتایا پنڈت جی آرہے ہیں ۔ فادر ، سیوادار اور امام صاحب اُن کی پیشوائی کے لئے آگے بڑھے اور انہیں ہمراہ لے کر اُس مقام پرآگئے جہاں صندوق رکھاہواتھا ۔ امام صاحب نے دوکان کے سامان اور نقدی کی فہرست پنڈت جی کو دکھائی اور پھرستّارکو تالا کھولنے کاحکم دیا ۔رام دین کی وصیت تھی کہ کریا کرم سے پہلے فادر جوزف، گُرمیت سنگھ ، پنڈت داتا پرساد اورامام جامع مسجد سید ارشاد علی کی موجودگی میں صندوق کاتالا کھولا جائے ۔ زنگ آلود تالے پر ستّار زور آزمائی کررہاتھا اور مجمع دھڑ کتے ہوئے دل سے اس کے کھلنے کا منتظر تھا۔ تھوڑی دیر کے لیے سبھی میت سے غافل ہوگئے ۔ حلقہ تنگ اورصبر کا دامن لبریز ہوتا جارہا تھا ۔ آخر گُرمیت سنگھ نے ستّار کوتالا توڑنے کو کہا۔ چند ضربوں میں تالا کنڈے سے الگ ہوچکاتھا۔ساتھ ہی ڈھیر سی زنگ صندوق کے گرد لکیر بناچکی تھی۔ سبھی سانس روکے اس پر نظر یں جمائے تھے ۔ ستّار نے لرزتے ہاتھوں سے ڈھکن کھولا تو بھیڑ اچانک آگے سرک آئی ۔ امام صاحب نے کرخت آواز میں لوگوں سے پیچھے ہٹنے کو کہا اور پھر ایک ایک سامان باہر نکالنے لگے ۔کپڑوں کے نیچے ایک کاغذ کا پُرزہ نکلا جو بھد میلا ہو چکا تھا۔ تحریر اردو میں تھی۔ سید ارشاد علی صاحب نے بلند آواز میں پڑھا:
’’میں دین محمد بے خوف و خطر اعلان کرتا ہوں کہ مجھے دفن کیا جائے۔‘‘
تمام مجمع حیرت زدہ ہوکر دم بخود ہو گیا۔