سفر ہے دھوپ کا اس میں قیام تھوڑی ہے
سفر ہے دھوپ کا اس میں قیام تھوڑی ہے
بلا ہے عشق یہ بچوں کا کام تھوڑی ہے
کسی کو وصل ہے بوجھل کوئی فراق میں خوش
دلوں کے کھیل میں کوئی نظام تھوڑی ہے
ہمارے دل میں دھڑکتا ہے نام اس کا ابھی
ہے یہ شروع محبت تمام تھوڑی ہے
جو اہل عشق ہیں منزل کا غم نہیں کرتے
یہ خاص لوگوں کا رستہ ہے عام تھوڑی ہے
ہم اپنے من کی کریں گے برا لگے کہ بھلا
ہمارا دل ہے تمہارا غلام تھوڑی ہے
تمہاری یاد جو آئی تو آ گئے ملنے
وگرنہ تم سے ہمیں کوئی کام تھوڑی ہے
بڑھا جو درد تو کاغذ پہ خود اتر آیا
سمجھ کے سوچ کے لکھا کلام تھوڑی ہے